سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) عیدین کی نماز کا وقت کتاب وسنت کی روشنی میں

  • 12085
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 4233

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیشتر احباب عیدین کی نماز کے متعلق پوچھتے ہیں کہ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کا وقت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام بخاری  رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نماز عیدین کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’عید کے لئے صبح سویرے جانا۔‘‘ پھر انہوں نے ایک معلق روایت کاحوالہ دیا ہے۔حضرت عبد اللہ  بن بسر  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’ہم نماز عید سے اس وقت فارغ ہوجاتے تھے جب وقت تسبیح، یعنی نفل پڑھنا جائز ہوجاتا ہے۔‘‘     [صحیح بخاری، کتاب العیدین :۱۰]

                 اس معلق روایت کوامام ابوداؤد نے اپنی مکمل سند کے ساتھ ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ  بن بسر  رضی اللہ عنہ جب لوگوں کے ہمراہ نماز عید پڑھنے گئے تو امام نے عید پڑھانے میں دیر کردی ،آپ نے اس تاخیر کاشدت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم تو (عہد نبوی )میں اس وقت نماز عید سے فارغ ہوجاتے تھے۔‘‘ اس وقت چاشت کا وقت تھا۔    [ابوداؤد، الصلوٰۃ :۱۱۳۵]

                طبرانی میں ہے یہ اشراق کاوقت تھا۔     [عمدۃ القاری، ص:۱۸۱،ج ۵]

                امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس سلسلہ میں دوسری حدیث بیان کی ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس دن ہمارا پہلا کام نماز پڑھنا، پھر قربانی کرناہے، جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کوپالیا۔‘‘     [صحیح بخاری ،العیدین :۹۶۸]

                حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ ا س دن کے آغاز میں نمازعید کی تیاری کے لئے اورکسی چیز میں مصروف نہیں ہونا چاہیے، تیاری کے بعد جلدی روانہ ہوناچاہیے، یہ اس بات کامتقاضی ہے کہ نماز عید کے لئے جلدی کرناچاہیے ۔   [فتح الباری ،ص:۵۸۹،ج ۲]

                 ان احادیث کاتقاضاہے کہ نماز عید طلوع آفتاب سے پہلے نہیں پڑھی جاسکتی ہے اورنہ ہی عین طلوع کے وقت پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ کراہت کے اوقات ہیں۔ طلوع آفتاب کے بعد جب نوافل پڑھنے کاوقت ہوتا ہے تونماز عید کے وقت کا آغاز ہوجاتا ہے۔ شارح بخاری ابن بطال نے اس پر فقہا کااجماع نقل کیا ہے۔     [شرح بخاری ابن بطال، ص:۵۶۰،ج ۲ ]

                 نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کوایک مرتبہ زوال آفتاب کے بعد چاند نظر آنے کی اطلاع ملی توآپ نے فرمایا:’’تمام لوگ کل صبح نماز عید کے لئے عید گاہ پہنچیں۔‘‘     [ابوداؤد ،الصلوٰۃ :۱۱۵۷]

                اگراس وقت نماز عید پڑھنے کی گنجائش ہوتی توآپ اسے کل آیندہ تک مؤخر نہ کرتے ،اس کاواضح نتیجہ یہ ہے کہ نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب تک ہے ۔نماز عید کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کاطرزعمل حسب ذیل ہے :

                حضرت عبد اللہ  بن عمر  رضی اللہ عنہما نماز فجر پڑھتے، پھراس حالت میں عیدگاہ چلے جاتے ،حضرت سعید بن مسیب بھی ایسا کرتے تھے۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ  اپنے بیٹوں سمیت کپڑے وغیرہ پہن کرتیاری کرکے مسجد کی طرف جاتے نماز فجر پڑھ کر وہیں بیٹھے رہتے ،جب طلوع آفتاب ہوجاتا توچاشت کے دونفل پڑھ کرعید پڑھنے کے لئے عید گاہ چلے جاتے۔حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما  دن چڑھے عیدگاہ جاتے۔ حضرت امام مالک  رحمہ اللہ بھی عید پڑھنے کے لئے اپنے گھر سے دن چڑھے روانہ ہوتے تھے۔امام شافعی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سورج خوب روشن ہوجائے توعید گاہ جانا چاہیے، البتہ عید الفطر اس سے کچھ وقت پہلے پڑھ لی جائے، یہ تمام آثار [عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ،ص:۱۸۲،ج ۵] سے نقل کے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت جندب رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزے کے برابر ہو جاتا، اورنماز عید الاضحی اس وقت پڑھتے جب سورج ایک نیزے کے برابرہوجا تا۔ [تلخیص ،ص:۱۲۷،ج ۲]

 لیکن اس کی سند میں معلی بن ہلال نامی راوی کذاب ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے ۔    [تمام المنۃ، ص:۳۴۷]

                 ان روایات وآثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عید پڑھنے کاوقت طلوع آفتاب کے بعد ہے اورچاشت کاوقت سورج کے ایک نیزے بلند ہونے پر ہوجاتا ہے ،بلاوجہ اس میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے ۔صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اس تاخیر پرانکار کرتے تھے عید الاضحیٰ کے دن قربانی کرنی ہوتی ہے ،اس لئے اسے عید الفطر سے پہلے پڑھنے میں چنداں حرج نہیں ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران میں تعینات حضرت عمروبن حزم  رضی اللہ عنہ کوخط لکھا تھا کہ عید الاضحی ٰجلدی پڑھا کرو اورعید الفطر کچھ تاخیر سے اد اکرو ۔    [بدائع المنن، ص:۲۷۲،ج ۲]

لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔     [الر وضۃ الندیہ، ص:۳۶۵، ج۱]

 آج کل گھڑیوں کادور ہے، اس لئے ہمیں دورحاضر کے مطابق گھڑیوں کاحساب لگانا ہوگا۔ محکمۂ موسمیات کی تصر یحات کے مطابق طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کاوقفہ ہوتا ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اگرصبح کی اذان پانچ بجے ہوتو تقریبا ً ساڑھے چھ بجے سورج طلوع ہو گا، چاشت کاوقت طلوع آفتاب کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد شروع ہو جاتا ہے، ضرورت کے پیش نظر اس میں مزید کچھ تاخیر کی جاسکتی ہے، اس لئے حضرت عبد اللہ  بن بسر رضی اللہ عنہ کی تصریح کے مطابق نماز عید کاوقت نمازچاشت کے وقت ہوتا ہے۔ اس لئے ہماے نزدیک لاہور کے اوقات کے مطابق نماز عید کاوقت سات، ساڑھے سات بجے شروع ہو جاتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اس کی تیاری پہلے سے کررکھیں، اگرطلوع آفتاب کے بعد اس کی تیاری کاآغاز کیاتو نماز عید کا وقتِ فضیلت نہیں مل سکے گا،البتہ جواز کاوقت زوال آفتاب تک ممتد ہے ،اب یہ ہماری ہمت ہے کہ ہم نے عید کے لئے وقتِ فضلیت کاانتخاب کرناہے یا وقت جواز کاسہار الینا ہے۔     [و اللہ  اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:163

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ