السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری مسجد میں عرصہ دراز سے سواایک بجے نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی مقامی ایک خطیب کے کہنے کے مطابق اس کا وقت ایک بجے کردیا گیا ۔اس طرح مسجد میں اختلاف کاآغاز ہوا جو ختم ہوتا نظر نہیں آتا ،براہِ کرم نماز جمعہ کے افضل وقت کی نشاندہی کردیں، شاید اس طرح موجودہ جماعتی اختلاف ختم ہو جائے؟ قرآن وحدیث کے مطابق جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمام نمازوں کوان کے اوقات پرادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نماز پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پرفرض کی گئی ہے ۔‘‘ [۴/النساء :۳۳]
یہ بات بھی مبنی برحقیقت ہے کہ نماز جمعہ کونمازظہر کی جگہ پرادا کیاجائے، یعنی نماز جمعہ کی ادائیگی کاوہی وقت ہے جونماز ظہر کوادا کرنے کاوقت ہے، اب سوال یہ ہے کہ حدیث کے مطابق نماز ظہر کاوقت کون سا ہے ۔ اس سلسلہ میں صحیح ترین روایت حسب ذیل ہے: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ’’اٹھیے اورنماز ادا کیجئے‘‘ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھلنے لگا، پھراگلے دن ظہر کے لئے آئے اورنماز ظہر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کاسایہ اس کے برابر ہوچکاتھا ۔آخر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا ان دونوں اوقات کے درمیان نمازوں کاوقت ہے ۔ [مسند امام احمد، ص:۳۳۰، ج ۲]
امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث اوقات نماز کے متعلق صحیح ترین حدیث ہے۔ [ترمذی، المواقیت: ۱۴۹]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز ظہر کاوقت زوال آفتاب سے لے کر کسی چیز کاسایہ اس کے برابر ہونے تک ہے۔ آج کل گھڑیوں کا دور ہے، اس لئے نماز ظہر زوال آفتاب سے تقریباً بیس منٹ بعد اداکرنا افضل ہے لیکن سخت گرمی میں ایک گھنٹہ سے ڈیڑھ گھنٹہ تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔ نماز جمعہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ اس کا وقت بھی زوال آفتاب سے شروع ہوجاتاہے۔ [صحیح بخاری ،الجمعہ :۹۰۴]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نما ز سردیوں میں جلد پڑھتے اورسخت گرمی میں دیر سے ادا کرتے ۔ [صحیح بخاری ،الجمعہ :۹۰۶]
نماز جمعہ اورخطبہ جمعہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل یہ ہے کہ آپ نماز کولمبا اور خطبہ کومختصر کرتے تھے ،خطبہ میں اللہ کاذکر ہوتا ۔ [نسائی، الجمعہ :۱۴۱۵]
راوی کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ اورخطبہ جمعہ کے متعلق اعتدال اورمیانہ روی اختیار کرتے ۔ [ترمذی ،الجمعہ:۵۰۷]
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جمعہ کے دن مختصر خطبہ دینے کاحکم دیتے تھے ۔ [ابوداؤد ،الجمعہ :۱۱۰۶]
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ کام کی چندباتوں پرمشتمل ہوتا تھا ۔ [ابوداؤد ،الجمعہ :۱۱۰۷]
یہ روایات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جمعہ کے دن خطبہ کو طویل کرکے افضل وقت سے تجاوز نہیں کرناچاہیے ۔جبکہ ایک روایت ہے کہ جمعہ کے دن نماز کوطویل اورخطبہ کومختصر کرنا خطیب کی عقلمند ی اورسمجھ داری کی علامت ہے۔ [صحیح بخاری ،الجمعہ :۸۶۹]
اس کا یہی مطلب ہے کہ جمعہ کی نماز عام نمازوں سے لمبی اور خطبہ عام خطبوں سے مختصر ہوناچاہیے ،ان روایات کی روشنی میں اگر خطبہ ساڑھے بارہ بجے شروع کیاجائے توا یک بجے یا سواایک بجے نماز کوکھڑاکردیا جائے۔ یہ افضل وقت ہے اس سے تجاوز کسی صورت میں نہیں ہوناچاہیے ،بہرحال خطبہ میں بے جا طوالت جو نماز میں تاخیر کاباعث ہوکسی صورت میں مستحسن نہیں ہے ۔ [و اللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب