سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(120) دوران نماز بعض لوگوں کا بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا

  • 12075
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1196

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دوران نماز بعض لوگ سورۂ فاتحہ یاکوئی سورت شروع کرتے وقت بسم  اللہ  بآواز بلند نہیں پڑھتے ،اس کے متعلق قرآن وحدیث سے راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سورۂ فاتحہ یاکسی اورسورت سے پہلے بسم  اللہ پڑھنا مشروع ہے کیونکہ یہ ہرسورت کی آیت ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ اسے جہری نماز وں میں بآواز بلند پڑھا جائے یا اسے آہستہ پڑھا جائے۔امام شافعی  رحمہ اللہ بآواز بلند پڑھنے کومسنون قرار دیتے ہیں جبکہ جمہوراہل علم کے نزدیک بسم  اللہ  کواونچی آواز سے پڑھنا مسنون نہیں ہے۔ فریقین کے پاس دلائل ہیں۔ چنانچہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ   سے مروی ہے کہ میں نے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ،حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ نمازیں پڑھی ہیں،میں نے ان سے کسی کواونچی آواز سے بسم  اللہ  پڑھتے ہوئے نہیں سنا ہے۔     [مسلم ،الصلوٰۃ :۶۰۵]

                ایک دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اونچی آواز سے بسم  اللہ  نہیں پڑھتے تھے۔    [مسند امام احمد، ص:۱۷۰،ج ۳]

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ  کی روایت ہے کہ وہ لوگ آہستہ بسم  اللہ  پڑھتے تھے۔     [صحیح ابن خزیمہ، ص:۲۵۰،ج ۱]

                ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز بسم  اللہ  کوآہستہ پڑھا جائے جبکہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے نماز پڑھی اوربسم  اللہ  بآواز بلند پڑھی اورفرمایا کہ میں نماز کے متعلق رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا کررہاہوں۔ [دارقطنی ،ص:۳۰۸،ج ۱]

                ان روایات کے پیش نظرہمارا موقف ہے کہ دوران نماز بسم  اللہ  کوپڑھنا دونوں طرح جائز ہے، البتہ آہستہ پڑھنے کے متعلق احادیث زیادہ صحیح اورواضح ہیں، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  اوران کے شاگرد رشید امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی موقف کواختیار کیا ہے۔  [زاد المعاد،ص:۱۹۹،ج ۱]

 بعض احادیث میں بسم  اللہ پڑھنے کاذکرنہیں ہے، انہیں راوی کے عدم علم یا قراء ت کے آہستہ پرمحمول کیاجائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:152

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ