السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسافر جب روزے کی حالت میں مکہ میں پہنچ جائے تو کیا وہ روزہ توڑ دے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ عمرہ ادا کر سکے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال مکہ میں بیس رمضان کو داخل ہوئے تھے اور اس وقت آپ نے روزہ نہیں رکھا ہوا تھا، مکہ میں آپ نماز بھی دو رکعت پڑھتے اور اہل مکہ سے فرماتے تھے:
«يَا اَهْلَ مَکَّةَ اَتِمُّوا فَاِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ» (موطا امام مالک، الحج، ح: ۲۰۲، ۲۰۳ وکتاب السفر (۱۹)
’’اے اہل! مکہ تم اپنی نماز پوری کر لو، ہم مسافر لوگ ہیں۔‘‘
صحیح بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے مہینے کے باقی ایام میں بھی مکے میں روزے نہیں رکھے کیونکہ آپ مسافر تھے۔ مکہ پہنچ کر عمرہ کرنے والے کا سفر ختم نہیں ہوتا اور اگر مکہ میں آتے وقت اس نے روزہ نہ رکھا ہو تو اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ کھانے پینے سے رکا رہے۔ بعض لوگ سفر میں بھی روزے رکھتے رہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ وقت میں روزے رکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے، لہٰذا روزے کی حالت میں جب مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں، تو وہ بہت تھکے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کیا روزے کو جاری رکھوں اور عمرہ کو روزہ افطار کرنے کے بعد ادا کروں یا روزہ چھوڑ دوں اور مکہ پہنچنے کے فوراً بعد عمرہ ادا کر لوں؟ اس صورت میں ہم اس کے لیے کہیں گے کہ افضل یہ ہے کہ تم روزہ چھوڑ دو تاکہ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے فوراً بعد عمرہ ادا کر لو؟ مذکورہ صورتحال میں اس کے لیے أفضل یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے تاکہ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے فوراً بعد ہشاش بشاش ہو کر عمرہ ادا کر سکے کیونکہ عمرے کی غرض سے آنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے فوراً بعد عمرہ ادا کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے تو آپ فوراً عمرہ ادا فرماتے حتیٰ کہ اپنی سواری کو مسجد حرام کے پاس بٹھاتے اور عمرہ ادا کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے، لہٰذا اے عمرہ ادا کرنے والے! تمہارا روزہ چھوڑ دینا تاکہ دن کے وقت چاق و چوبند ہو کر عمرہ ادا کر سکو اس سے افضل ہے کہ تم اپنا دن حالت روزہ میں گزارو اور پھر روزہ افطار کرنے کے بعد رات کو عمرہ ادا کرو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ غزوئہ فتح کے سفر میں آپ روزے کی حالت میں تھے، لوگوں نے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول! لوگوں کو روزے کی وجہ سے بہت مشکل پیش آرہی ہے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ آپ کیا طرز عمل اختیار فرماتے ہیں۔‘‘
یہ عصر کے بعد کا وقت تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور اسے نوش جان فرما لیا۔ لوگ دیکھ رہے تھے کہ آپ نے اثنائے سفر روزہ افطار کر لیا اور افطار بھی دن کے آخری حصے میں کیا۔
اور یہ سب اس لیے تھا کہ آپ امت کے لیے اس بات کو بیان فرما دیں کہ یہ جائز ہے۔ بعض لوگوں کا تکلف اور مشقت کے ساتھ دوران سفر حالت روزہ میں رہنا بلا شک خلاف سنت ہے اور ایسے لوگوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
«لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ» (صحيح البخاري، الصوم، باب قول النبی لمن ظلل عليه واشتد الحر: ’’ليس من البر الصيام فی السفر‘‘ ح: ۱۹۴۶ وصحيح مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافرين من غير معصية، ح: ۱۱۱۵)
’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب