سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(402) مسافر کے نماز روزے کا حکم

  • 1204
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1922

سوال

(402) مسافر کے نماز روزے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسافر کا نماز روزہ کب اور کیسے ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مسافر کی نماز شہر سے نکلنے سے لے کر واپس آنے تک دو رکعتیں ہیں کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کا قول ہے:

«أَوَّلُ مَا فُرِضَت الصلاة فرضتْ رَکْعَتَيْنِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ  وَفی رواية، وَزِيْدَ فِی صَلَاةِ الْحَضَرِ» (صحيح البخاري، تقصير الصلاة، باب يقصر اذا خرج من موضعه، ح: ۱۰۹۰ وصحيح مسلم، صلاة المسافرين و قصرها، باب صلاة المسافرين وقصرها، ح: ۶۸۵)

’’نماز پہلے پہل دو رکعتیں فرض قرار دی گئی تھیں، پھر سفر کی نماز کو تو برقرار رکھا گیا اور حضر کی نماز کو پورا کر دیا گیا۔‘‘ اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: ’’حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔‘‘

اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:

«خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَی مَکَّةَ فَصلی رَکْعَتَيْنِ رَکْعَتَيْنِ حَتَّی رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ» (صحيح البخاري، تقصير الصلاة، باب ماجاء فی التقصير، ح: ۱۰۸۱ وصحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة المسافرين وقصرها، ح: ۶۹۳)

’’ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مدینے سے مکہ کی طرف نکلے، تو آپ دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ ہم مدینے لوٹ آئے۔‘‘

مسافر اگر مقیم امام کے ساتھ نماز پڑھے تو چار رکعتیں پڑھے، خواہ وہ شروع سے نماز میں شامل ہو یا اس کا کچھ حصہ فوت ہوگیا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے حسب ذیل فرمان کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

«إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَی الصَّلَاةِ وَعَلَيْکُمْ بِالسَّکِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا» (صحيح البخاري، الاذان، باب لا يسعی الی الصلاة واليات بالسکينة والوقار، ح: ۶۳۶)

’’جب تم اقامت کو سن لو تو نماز کی طرف چلو اور سکون و وقار کے ساتھ چلو اور تیز نہ چلو۔ جو حصہ پا لو اسے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے پورا کر لو۔‘‘

آپ کا یہ فرمان کہ جو حصہ پا لو اسے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے پورا کر لو ان مسافروں کے لیے بھی ہے جو چار رکعت پڑھنے والے امام کے پیچھے پڑھیں اور دیگر لوگوں کے لیے بھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا وجہ ہے کہ مسافر انفرادی طور پر نماز پڑھے تو دو رکعتیں پڑھتا ہے اور جب مقیم امام کی اقتدا میں پڑھے تو چار رکعتیں پڑھتا ہے تو انہوں نے جواب دیا: سنت طریقہ یہی ہے۔ مسافر سے بھی نمازباجماعت ساقط نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تو حالت جنگ میں بھی حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا كُنتَ فيهِم فَأَقَمتَ لَهُمُ الصَّلوةَ فَلتَقُم طائِفَةٌ مِنهُم مَعَكَ وَليَأخُذوا أَسلِحَتَهُم فَإِذا سَجَدوا فَليَكونوا مِن وَرائِكُم وَلتَأتِ طائِفَةٌ أُخرى لَم يُصَلّوا فَليُصَلّوا مَعَكَ...﴿١٠٢﴾... سورة النساء

’’اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے، پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو پیچھے ہو جائیں، پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے۔‘‘

مسافر جب اپنے شہر کے علاوہ دوسرے شہر میں ہو تو واجب ہے کہ جب اذان سنے تو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں آئے اِلاَّ یہ کہ وہ مسجد سے دور ہو یا ساتھیوں کے گم ہونے کا اندیشہ ہو۔ اذان واقامت سننے والے پر وجوب نماز باجماعت کے دلائل کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ مسافر ظہر، مغرب اور عشاء کی سنن مؤکدہ کے علاوہ دیگر تمام نوافل ادا کر سکتا ہے۔ وہ نماز و تر، تہجد، ضحی، صبح کی سنتیں اور دیگر غیر مؤکدہ نوافل پڑھ سکتا ہے۔ اگر مسافر چل رہا ہو تو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھے جس طرح اس کے لیے آسانی ہو، جمع تقدیم و تاخیر کر سکتا ہے، جس کام میں زیادہ آسانی ہو، وہی افضل ہے۔ اگر مسافر کسی جگہ مقیم ہوگیا ہو تو افضل یہ ہے کہ جمع نہ کرے، اگر جمعہ کر بھی لے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ دونوں باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہیں۔ جہاں تک رمضان میں مسافر کے روزے کا تعلق ہے، تو روزہ رکھنا افضل ہے اور اگر نہ رکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور جتنے دن روزے نہ رکھے، بعد میں ان کی قضا ادا کر لے۔ اگر روزہ نہ رکھنے میں زیادہ آسانی ہو تو افضل یہ ہے کہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ان کی عطا کردہ رخصتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ375

محدث فتویٰ

تبصرے