سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(83) نماز تہجد کی رکعات اور ان کی قضا

  • 12038
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 2560

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 نماز تہجد کی گیارہ رکعت کس طرح ادا کی جائیں، نیز اگرکسی وجہ سے نمازتہجد نہ پڑھی جائے تواسے بطور قضا پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  عام طورپر تہجد کی گیارہ رکعات ادا کرتے تھے بعض اوقات تہجد سے پہلے دورکعات بطور تمہید یا افتتاح اداکرتے جوہلکی پھلکی ہوتیں، اس طرح تہجد کی رکعات تیرہ ہوجاتیں، رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نماز تہجد مختلف انداز سے ادا کرتے تھے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭  دو دو رکعات اداکرنے کے بعد سلام پھیردیاجائے۔ آخرمیں ایک وتر الگ پڑھ لیاجائے ۔عام طورپررسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نماز تہجد اس طرح اد اکرتے تھے ۔     [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین :۷۳۶]

٭  پہلے دورکعات الگ پڑھ لی جائیں، پھرنورکعات اس طرح ادا کی جائیں کہ آٹھویں رکعت میں تشہد پڑھاجائے، پھر کھڑے ہوکر ایک رکعت ادا کی جائے ۔     [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین :۷۴۶]

٭  پہلے دودوکرکے چاررکعت ادا کی جائیں، پھرسات رکعات کی نیت کرکے آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے۔  [مسندامام احمد، ص:۲۳۹،ج ۳]

٭  پہلے دو دو کر کے چھ رکعات ادا کی جائیں، پھر پانچ رکعت اس طرح اداہوں کہ آخری رکعت میں تشہد مکمل کرکے سلام پھیر دیا جائے۔     [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین :۷۳۷]

٭  پہلے آٹھ رکعات دو دو کرکے اداکی جائیں، پھرتین وتر حسب ذیل طریقے سے پڑھے جائیں ۔

(۱)دورکعت پڑھ کرسلام پھیردیاجائے اور ایک وتر الگ پڑھاجائے اسے فصل کاطریقہ کہا جاتا ہے ۔[صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین : ۷۳۶]

(ب)  تین رکعت درمیان میں تشہد بیٹھے بغیرادا کی جائیں اورآخری رکعت میں تشہدکومکمل کرکے سلام پھیردیا جائے۔[مستدرک حاکم، ص:۴۴۷،ج ۱]

                اسے طریقہ وصل کہتے ہیں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  اس آخری طریقہ کے مطابق تین وتر اداکرتے تھے، امام حاکم رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ اہل مدینہ بھی حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے طریقہ کے مطابق نمازوتر پڑھتے تھے ،اگررات کونیند کاغلبہ ہویانسیا ن کی وجہ سے تہجد یا وتر بھول جائیں تواس کی ادائیگی کے متعلق علمائے کرام میں اختلاف ہے ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس لئے ان کے نزدیک ان کی قضا بھی ضروری ہے جبکہ امام مالک  رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ اگر تہجد یاوتر رہ جائیں توانہیں بطور قضا نہیں پڑھنا چاہیے۔ امام شافعی اورامام احمد بن حنبل رحمہما اللہ  فرماتے ہیں کہ اسے بطورقضا پڑھاجاسکتا ہے اس کے لئے وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے جب بھی بیدار ہو یا یاد آئے تواسے ادا کیا جاسکتا ہے ۔اس موقف کی بنیاد حدیث نبوی پر ہے۔ [مستدرک حاکم، ص:۴۴۳ج ۱]

 صحیح موقف یہ ہے کہ اگرکسی کاوظیفہ شب رہ جائے تواس کی قضا ضروری نہیں، اگر پڑھنا چاہیے تواگلے دن ظہر سے پہلے پہلے اسے ادا کر لے، اس صورت میں اسے رات کے وقت ادائیگی کا ہی ثواب ملے گا۔     [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین : ۱۴۲]

  رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   کاطریقہ مبارک یہ تھا کہ جب نیند یاکوئی تکلیف قیام اللیل میں رکاوٹ بن جاتی تودن میں بارہ رکعات ادافرما لیتے تھے۔     [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین : ۱۳۹]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:127

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ