سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) فرض نماز کے بعد دعا مانگنا

  • 12037
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-10
  • مشاہدات : 928

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں امام صاحب فرض نماز پڑھانے کے بعد دعانہیں مانگتے، کہتے ہیں کہ اس کاکوئی ثبوت نہیں وضاحت فرمائیں۔ نماز پنجگانہ کتنی رکعات ہیں ،ہرنماز کی رکعات مفصل تحریر فرما دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کے بعد اگرکوئی انفرادی طورپر دعامانگتا ہے توا س میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے ۔البتہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کاثبوت محل نظر ہے،اس سلسلہ میں جتنی بھی روایات پیش کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں ہیں، اگر صحیح ہیں تومدعا ثابت کرنے لئے صریح نہیں ہیں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ میں دس سال رہے۔ پانچوں وقت صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کونمازیں پڑھائیں۔ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد نے آپ کی اقتدا میں نمازیں ادا کیں ۔مگران میں سے کوئی ایک بھی اجتماعی دعا کاذکرنہیں کرتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے معمول بنالینا سنت کے خلاف ہے اگرکوئی امام صاحب سے استدعا کرے تو اس کی تعمیل میں اجتماعی دعا کی جاسکتی ہے، اس پرکوئی پابندی نہیں ہے۔   [و اللہ  اعلم]

٭  نماز پنجگانہ کی فرض رکعات حسب ذیل ہیں۔ نمازفجر دوفرض، نمازظہر چار فرض، نماز عصر چارفرض، نماز مغرب تین فرض، عشاء چار فرض اور نماز جمعہ دوفرض۔

٭  نماز پنجگانہ کی سنت رکعات حسب ذیل ہیں ۔

                حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’جوشخص دن اوررات میں (فرض رکعات کے علاوہ) بارہ رکعات پڑھے، اس کے لئے جنت میں ایک محل تیار کیاجاتا ہے۔ چاررکعات ظہر سے پہلے ،دورکعت اس کے بعد ،دورکعت مغرب کے بعد، دورکعت عشاء کے بعد اوردورکعت فجر سے پہلے ۔‘‘    [ترمذی ،الصلوٰۃ :۴۱۵]

    حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ظہر سے پہلے دورکعات (سنت )پڑھیں ۔ [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین :۷۲۹]

                اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ ظہر سے پہلے چار سنت کے بجائے دورکعت بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔ان بارہ رکعات کوسنن مؤکدہ کہاجاتا ہے، ان کے علاوہ کچھ سنتیں غیرمؤکدہ بھی ہیں، مثلاً :

٭رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’جوشخص عصر سے پہلے چار رکعت (سنت) پڑھے،  اللہ  اس پررحم کرے ۔‘‘ [صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین : ۴۳۰]

٭  رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے دومرتبہ فرمایا کہ ’’مغرب سے پہلے دورکعات ادا کرو ،تیسری بارفرمایا کہ جس کادل چاہے، یہ اس لئے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت مؤکدہ نہ بنالیں۔‘‘     [صحیح بخاری ،التہجد: ۱۱۸۳]

٭  جمعہ سے پہلے نوافل کی ادا ئیگی پرکوئی پابندی نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ’’ جوشخص غسل کرکے جمعہ کے لئے آئے اور خطبہ شروع ہونے تک جس قدر ہوسکے نوافل ادا کرتا رہے، پھر خطبہ جمعہ شروع سے آخرتک خاموشی سے سنے تواس کے گزشتہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک اورمزید تین(۳)دن کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘     [صحیح مسلم، الجمعہ:۸۵۷]

٭  جمعہ کے بعد چار رکعت سنتیں پڑھنا چاہیے ۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہو تو چار رکعات اداکرو۔ [صحیح مسلم ،الجمعہ :۸۸۱]

  اگر کوئی گھر آکر پڑھنا چاہے تو دو رکعات ہی کافی ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم    جمعہ کے بعد کچھ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ تاآنکہ اپنے گھر آتے اور دو رکعات پڑھتے۔     [صحیح بخاری، الجمعہ،۹۳۷]

                نماز عشاء کے ساتھ ہم نے وتروں کاذکر اس لئے نہیں کیاکہ وترعشا ء کی نماز کاحصہ نہیں ہیں بلکہ وترنماز تہجد کا حصہ ہیں جو تہجد کے ساتھ ملاکر پڑھے جاتے ہیں۔ جو حضرات رات کواٹھنے کے عادی نہ ہوں شریعت نے انہیں سہولت دی ہے کہ وہ نماز عشاء کے ساتھ انہیں پڑھ لیں۔ حدیث میں ہے جسے اندیشہ ہوکہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا وہ اول شب ہی وتر پڑھ لے۔ [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین :۷۵۵]

ان فرائض وسنن کے علاوہ نوافل کی ادائیگی پرکوئی پابندی نہیں ہے ۔آپ حضرات اپنی خوشی سے جس قدر چاہیں نوافل پڑھ سکتے ہیں لیکن ان نوافل کوفرائض کے ساتھ نتھی نہ کیاجائے ۔واضح رہے کی قیامت کے دن جب نماز کے متعلق باز پرس ہوگی تو فرائض کی کمی کو نوافل وسنن سے پورا کیاجائے گا، اس لئے فرائض کی حفاظت کے لئے سنن اورنوافل بھی ادا کرنے چاہیں ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:126

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ