سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(77) نماز کے لیے جسم کو کس حد تک ڈھانپا جائے؟

  • 12031
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1186

سوال

(77) نماز کے لیے جسم کو کس حد تک ڈھانپا جائے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گرمی کے موسم میں دوران نماز مکمل جسم ڈھانپنا چاہیے یاکندھوں پررومال وغیرہ ڈال لیاجائے تواتناہی کافی ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نمازی کے لئے ضروری ہے کہ دوران نماز اپنے ستر کے سمیت دونوں کندھوں کوبھی ڈھانپ کرنماز پڑھے۔ مردحضرات کاستر ناف سے گھٹنوں تک ہے جبکہ عورتوں کاساراجسم ہی ستر ہے مردوں کے لئے ستر کے علاوہ کندھوں کاڈھانپنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پرکچھ نہ ہو۔‘‘     [صحیح بخاری ،الصلوٰۃ :۲۵۹]

نیز حضرت عمر وبن ابی سلمہ  رضی اللہ عنہ کابیا ن ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک مرتبہ صرف ایک کپڑے میں نماز بایں طورپر پڑھتے دیکھا کہ آپ نے اس کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں کندھوں پرڈال رکھا تھا۔    [صحیح بخاری ،الصلوٰۃ:۳۵۶]

   ان احادیث کے پیش نظر ایک ستر پوش نمازی کے لئے یہ گنجائش ہے کہ وہ صرف رومال وغیرہ کندھوں پرڈال کر نماز پڑھ لے یابازو والی بنیان پہن لے، ہاں، اگر رومال وغیرہ کندھوں پرڈالاہے تواس کے دونوں کناروں کوکھلا نہ چھوڑ اجائے ،بلکہ اس کی گرہ دے لی جائے کیونکہ کپڑے کوکھلا چھوڑدینا سدل ہے جس کی نماز میں ممانعت ہے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوران نماز منہ ڈھانپنے اورسد ل سے منع فرمایا۔      [ابوداؤد، الصلوٰۃ: ۶۴۳]

                سدل یہ ہے کہ سر یاکندھوں پراس طرح کپڑا ڈالا جائے کہ وہ دونوں طرف لٹکتا رہے، ہاں اگر سریا گردن پرکپڑے کوبل دے کر لپیٹ لیا، پھراس کے دونوں کنارے لٹکیں تویہ سدل نہیں ہے اورنہ ہی اس کی ممانعت ہے ،البتہ عورت کے لئے ضروری ہے کہ دوران نماز اس کے چہرے اورہاتھوں کے علاوہ اس کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہ ہوحتی کہ اس کے قدم بھی ڈھکے ہوئے ہوں، حضرت ام سلمہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورت اوڑھنی اورایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے کہ جس میں اس کے قدم بھی چھپ جائیں۔    [سنن بیہقی، ص:۲۳۲ج ۲]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے لکھا ہے کہ اس حدیث کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے۔     [بلوغ المرام، حدیث نمبر:۲۰۷]

   تاہم اس قسم کی موقوف روایت مرفوع کے حکم میں ہے کیونکہ اس میں جومسئلہ بیان ہوا ہے اس کاتعلق اجتہاد واستنباط سے نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر رومال وغیرہ سے کندھوں کوڈھانپ لیاجائے تواس میں نمازہوجاتی ہے بشرطیکہ قابل سترحصہ ڈھانپا ہواہو۔   [و اللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:122

تبصرے