السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگردوران نما ز تعداد رکعات کے متعلق شک پڑجائے توکیا کرناچاہیے ،اس کے متعلق کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوران نماز تعدا د رکعات کے متعلق شک پڑنے کی صورت میں کچھ تفصیل ہے ۔اگر نمازی کواپنی نما ز میں شک پڑجائے تواپنے ذہن پرزورڈال کر درستی کی کوشش کر ے، اسے شرعی اصطلاح میں تحری کہتے ہیں ،پھر اپنی مستحکم رائے پرنماز کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے پورا کرے اورسلام پھرنے کے بعدسہو کے دوسجدے کرے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ [صحیح بخاری ، الصلوٰۃ : ۴۰۱]
اگرکوئی مستحکم رائے نہ قائم کرسکے تویقین پربنیاد رکھے جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم میں سے کسی کو دوران نماز شک پڑجائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں تین یاچار ،توایسی صورت میں شک کونظرانداز کرکے جس پر یقین ہواس پرنماز کی بنیاد رکھے، پھرسلام پھیرنے سے پہلے سہوکے دوسجدے کرے۔اگر اس نے پانچ رکعت پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی چھٹی رکعت کے قائم مقام ہوں گے اور اگروہ پہلے ہی نمازپوری پڑھ چکاہے تویہ سجدے شیطان کی ذلت اوررسوائی کا باعث ہوں گے۔‘‘ [صحیح مسلم، المساجد :۵۷۱]
اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کسی کواپنی نماز میں شک پڑجائے اوراسے پتہ نہ چلے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی یادو تووہ اپنی نماز کوایک رکعت ہی قرار دے اور اگراسے علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین تووہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے اور اگر اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ تین ہی شمار کرے جب وہ نماز سے فراغت کے قریب ہو تو سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے ہی سہو کے دو سجدے کرے۔‘‘ [مسندامام احمد،ص:۱۹۰،ج ۱]
دوران نماز شک پڑنے کی صور ت میں دیارعرب کے نامور عالم دین شیخ محمد صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دومعاملات میں تردد کوشک کہتے ہیں۔ تین حالات میں شک کوکوئی حیثیت نہ دی جائے۔
٭ اگردوران نماز محض وہم پیدا ہو جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی جیسا کہ وسوسہ وغیرہ ہوتا ہے۔
٭ جب نمازی کو بکثرت وہم میں پڑجانے کی بیماری ہوکہ جب بھی نماز کے لئے کھڑا ہو تو وہ وہم کاشکار ہوجائے۔
٭ نماز سے فراغت کے بعد شک پڑجائے تواس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے ۔
ان تین حالات کے علاوہ اگردوران نماز شک پڑجائے تووہ قابل اعتبار ہوگا اوراس کی دوحالتیں ممکن ہیں:
1۔ نمازی کارجحان ایک طرف ہے ،اس صورت میں اپنے رجحان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی نماز کوپورا کرے اورسلام پھیر دے، پھر سہو کے دوسجدے کرے اورسلام پھیر دے، مثلاً: ایک نماز ی کونماز ظہر پڑھتے ہوئے شک پڑا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری، لیکن رجحان تیسری رکعت کی طرف ہے تواسے تیسری قرار دے کراپنی نماز پوری کرے، یعنی ایک رکعت مزید پڑھے اور سلام پھیردے۔ اس کے بعد سہو کے دوسجدے کرے اورسلام پھیردے، جیسا کہ صحیح بخاری حدیث نمبر۴۰۱ میں ہے۔
2۔ اگرنمازی کارجحان کسی جانب نہیں ہے تو وہ شک کونظر انداز کرکے یقین پربنیاد رکھے اور یقین سے مراداس کی کم رکعات ہیں، پھر نماز مکمل کرکے سلام سے قبل سہو کے دوسجدے ادا کرے اورسلام پھیر دے، مثلاً: ایک نمازی کونمازعصر پڑھتے ہوئے شک گزرا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری اور اس کا رجحان بھی کسی طرف نہیں ہے توکم رکعات پربنیاد رکھے جویقینی ہیں، یعنی اسے دوسری رکعت قرار دے کرپہلا تشہد پڑھے ،اس کے بعد مزید دو رکعت پڑھے، پھرسلام سے قبل سہو کے دوسجدے کرے اورسلام پھیردے۔ جیسا کہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر :۵۷۱میں ہے،سجود السہو،ص ۸،۷)اس بنا پر نماز میں شک پڑنے کی صورت درج بالاتفصیل کے مطابق عمل کیا جائے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب