السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دوران سفرجونماز رہ گئی ،گھر آکر وہ پوری پڑھی جائے یاقصر ادا کی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوران سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بایں طورپر نمازیں اداکرتے تھے کہ اگر زوال آفتاب یاغروب آفتاب سے پہلے سفر شروع کرتے توظہر کومؤخر کرکے عصرکے ساتھ اورمغرب کومؤخر کرکے عشاء کے ساتھ پڑھتے اوراگر سفر کاآغاز زوال آفتاب یا غروب آفتاب کے بعد ہوتا توعصر کومقدم کرکے ظہر کے ساتھ اور عشاء کومقدم کرکے مغرب کے ساتھ اد اکرتے، پھرسفر شروع کرتے، دوران سفرنماز فوت ہونے کاکوئی واقعہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ صرف ایک دفعہ نیند کی وجہ سے صبح کی نماز فوت ہوئی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن چڑھے باجماعت ادافرمایا ۔جن کوائف کے ساتھ نماز فوت ہوتی تھی انہی کوائف کے ساتھ اسے ادا کیا گیا، اسی طرح حضرمیں غزوہ ٔخندق کے موقع پرکچھ نماز یں فوت ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروب آفتاب کے بعد فوت شدہ نماز وں کواد افرمایا اوراداکرتے وقت ترتیب کوملحوظ رکھا ،ان اشباہ ونظائر کوپیش نظر رکھتے ہوئے صورت مسئولہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ نماز جس حالت میں فوت ہوئی ،اداکرتے وقت اسی حالت کوپیش نظر رکھا جائے، مثلاً: ایک نماز سفر کی تیاری کے وقت فوت ہوگئی تواس وقت چونکہ چاررکعت ادا کرناتھی، اس لئے دوران سفر اس قسم کی فوت شدہ نماز کوچاررکعت کی شکل میں ہی اد اکیا جائے ،اس کے لئے یہ مفروضہ قائم کرناکہ قصر کی اباحت یارخصت سفر کی وجہ سے تھی گھر پہنچ کرقصر کاسبب (سفر)ختم ہوچکا ہے، لہٰذا اسے فوت شدہ نمازپوری پڑھنی چاہیے، محض سخن سازی ہے کیونکہ بات توفوت شدہ نمازوں سے متعلق ہے اسے کس حالت میں ادا کرناہے دیگر نمازیں تو اہتما م سے ہی ہوں گی،کیونکہ ان کے لئے قصرکاسبب زائل ہوچکا ہے بہرحال فوت شدہ کوادا کرتے وقت اس کے فوت ہونے کی حالت کومدنظر رکھناہوگا ۔اگراس پر قصر کرنا ضروری تھا توقصر پڑھی جائے اور اگر پوری پڑھنا فرض تھی توادا کرتے وقت پوری پڑھی جائے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب