سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) تہجد کی اذان کی شرعی حیثیت

  • 12021
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1763

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اذان تہجد کے متعلق وضاحت فرمائیں کہ اس کی کیا حیثیت ہے ،حضرت بلال  رضی اللہ عنہ جواذان دیتے تھے اس پر اعتراض ہے کہ وہ صرف رمضان کے ساتھ خاص ہے کیا اذان ِ تہجدساراسال بھی دی جاسکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں صرف فجر کی ایک اذان ہوتی تھی،جیسا کہ حضرت عبد اللہ  بن زید بن عبدربہ  رضی اللہ عنہ نے جب اذان کے متعلق خواب میں دیکھا تورسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت بلال  رضی اللہ عنہ کوپانچوں وقت اذان دینے کیلئے تعینات فرمایا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ  خوش الحان اوربلند آواز تھے۔ اس وقت فجر کی اذان بھی ایک ہوتی تھی۔     [مسند امام احمدص:۴۳ج ۴]

   حضرت بلال رضی اللہ عنہ  نے ایک مرتبہ صبح کی اذان وقت سے پہلے کہہ دی تھی تواس کے متعلق باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نیند آنے کی وجہ سے بروقت اذان نہیں دی جاسکی۔     [ابوداؤد ،الصلوۃ:۵۳۲]

  ایک روایت میں ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت بلال  رضی اللہ عنہ کوپابند کیاتھا کہ فجر واضح ہونے سے پہلے صبح کی اذان نہ کہی جائے۔     [ابودادود، الصلوٰۃ: ۵۳۴]

                اگرچہ امام ابوداؤد نے ان روایات کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، تاہم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ صبح کی اذان ایک ہوتی تھی اورحضرت بلال  رضی اللہ عنہ کہتے تھے جب حضرت ابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہ نے اذان کہنے کے متعلق اپنے شوق کااظہار کیا توصبح کی دواذانیں دینے کااہتمام کردیا گیا۔ پہلی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کہتے جبکہ دوسری اذان حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ذمے لگادی گئی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ  رات کواذا ن دیتے تھے، اس لئے تم سحری کھاؤ اورپیو،تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔ [صحیح بخاری، الاذان: ۲۶۳]

                ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ  نابینے تھے وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے تاآنکہ انہیں کہاجاتا کہ صبح ہوگئی اب اذان کہہ دی جائے۔     [صحیح بخاری، الاذان: ۶۱۷]

                اس میں رمضان یاغیررمضان کی تخصیص نہیں ہے، لیکن یہ اذان اولیٰ نماز فجر کے وقت کااعلان اور سامعین کوحضور جماعت کی دعوت دینے کے لئے نہیں ہے اسے تہجد کی اذان کہنے کی بجائے سحری کی اذان کہنازیادہ مناسب ہے، کیونکہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس اذان کی غرض وغایت خودفرمائی ہے کہ تہجد پڑھنے والاگھر لوٹ آئے اوراپنے گھر سونے والابیدار ہو جائے۔  [صحیح بخاری، الاذان: ۶۲۱]

  واضح رہے کہ ہمارے ہاں یہ اذان فجر کی اذان سے کافی وقت پہلے کہہ دی جاتی ہے کیونکہ یہ اذان سحری کھانے اورنماز فجر کی تیاری کے لئے ان دونوں کاموں کے لئے چالیس، پینتالیس منٹ کافی ہیں، اس لئے گھنٹوں پہلے یہ اذان دینا درست نہیں ہے، نیز مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ اذان رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کیونکہ سحری کاتعلق صرف رمضان سے ہی نہیں بلکہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ تفصیل کے لئے کتاب مرعاۃ المفاتیح (ص:۱۵۵ج۲ )کودیکھا جاسکتا ہے ۔    [و اللہ  اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:113

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ