سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) دوران جماعت نمازیوں کو سلام کہنا

  • 12020
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1863

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا دوران جماعت نمازیوں کو سلام کہناضروری ہے جبکہ ایسا کرنے سے خشوع بھی متاثر ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں کچھ ساتھی جب جماعت کھڑی ہوتی ہے تو بآواز بلند سلام کہتے ہیں کچھ نمازی کہتے ہیں کہ جماعت کھڑی ہوتوسلام نہیں کہنااورنہ ہی اس کاجواب دیناچاہیے ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 دوران نماز انسان کوایسا کا م نہیں کرناچاہیے جونماز کا حصہ نہیں ہے اورنہ ہی باہر سے آنے والے کوکوئی ایسا کام کرنے کی اجازت ہے جس سے نماز ی حضرات کاخشوع متاثر ہو ،لیکن بعض کام ایسے ہیں جونماز کاحصہ نہ ہونے کے باوجود بھی دوران نماز کئے جاسکتے ہیں کیونکہ شریعت نے ان کی اجازت دی ہے، اس طرح کچھ کام ایسے ہیں کہ باہر سے آنے والاانہیں سرانجام دے سکتا ہے، اگرچہ اس سے کسی حدتک نمازی کاخشوع متاثر ہوتا ہے ۔ان میں سلام کاکہنا اوراس کامخصوص انداز سے جواب دینا بھی ہے واضح رہے کہ نماز سے متعلقہ احکام کی تکمیل کئی ایک مراحل میں ہوتی ہے ۔چنانچہ پہلے دوران نماز باہر سے آنے والوں کوسلام کہنے اورنمازیوں کواس کاجواب دینے کی اجازت تھی ،لیکن بعد میں اس اجازت کوختم کردیا گیا، چنانچہ حضرت عبد اللہ  بن مسعود  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز پڑھ رہے ہوتے توہم آپ کو سلام کہتے اور آپ اس کا دوران نماز جواب بھی دیتے تھے لیکن حبشہ کے فرمانرواحضرت نجاشی کے پاس سے واپس مدینہ آئے تومیں نے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کوحسب معمول دوران نماز سلام کہا لیکن آپ نے اس کاجواب نہ دیا میرے دل میں اس سے متعلق طرح طرح کے خیالات آنے لگے ۔جب آپ نے سلام پھیراتومیں نے اس کے متعلق آپ سے دریافت کیا ۔آپ نے فرمایا: ’’نماز میں مصروفیت ہوتی ہے ۔‘‘     [صحیح مسلم ،المساجد :۱۲۰۱]

 ایک روایت میں ہے کہ جب میں نے آپ کوسلام کہا توآپ نے میری طرف اشارہ فرمایا۔    [صحیح مسلم: ۱۲۰۵]

                ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز سلام کہا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرناضروری نہیں ہے کہ اگر نہ کہا جائے توکسی فرض کاتارک قرار پائے، اس لئے باہر سے آنے والے کو چاہیے کہ اگروہ سلام کہنا چاہتا ہے توبآواز بلند سلام ’’پھینکنے‘‘ کی بجائے نہایت شائشتگی اور آہستگی سے سلام کہے۔نماز میں مصروف انسان کے لئے اس کا جواب کہنادوطرح سے جائز ہے ۔

1۔  نماز سے فراغت کے بعد زبان سے اس کا جواب دے دے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ  بن مسعود رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کودوران نماز سلام کہا توآپ نے فراغت کے بعد اس کاجواب دیا اور اس کے ساتھ ساتھ وضاحت بھی کردی۔   [ابوداؤد،الصلوٰۃ:۹۴۲]

  دوران نما زاپنے ہاتھ کے اشارہ سے بھی جواب دیا جاسکتا ہے لیکن زبان سے کچھ نہیں کہناچاہیے ۔چنانچہ حضرت عبد  اللہ  بن عمر  رضی اللہ عنہما   روایت کرتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دفعہ مسجد قبا تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے نماز پڑھی تووہاں مقیم انصاری حضرات دوران نماز آپ کوسلام کرنے لگے ۔رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تھے، اس لیے میں نے ان سے دریافت کیاکہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے سلام کاجواب کیسے دیتے تھے انہوں نے کہا آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے ۔ [ابن ماجہ، اقامۃ الصلوٰۃ:۱۰۱۷]

حضرت عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت بلال  رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال کیا تھا توانہوں نے بھی وہی جواب دیا جوحضرت  صہیب رضی اللہ عنہ  نے دیاتھا۔     [جامع ترمذی ،الصلوٰۃ :۳۶۸]

                جبکہ ابوداؤد میں ہے کہ حضرت بلال  رضی اللہ عنہ  نے اپنا ہاتھ پھیلا کروضاحت فرمائی کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  دوران نماز اس طرح جواب دیتے تھے۔     [ابوداؤد ،الصلوٰۃ :۹۲۷]

  دراصل شریعت بعض اوقات کسی انسان کی حسن نیت کے پیش نظر اس کے کسی عمل کو صرف جواز کی حد تک نہ کہ افضل ہونے کی حیثیت سے گوار اکرلیتی ہے۔ اس لئے ایسے اعمال کو مسنون ہونے کادرجہ نہیں دیاجاسکتا ،جیسا کہ ایک آدمی نے دوران جماعت رکوع سے اٹھ کربآواز بلند ’’کلمات تحمید ‘‘ادا کئے تھے ۔رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے اخلاص کے پیش نظر اس کی تحسین فرمائی لیکن خود اس پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی دوسروں کویہ عمل بجالانے کی تلقین فرمائی ،دوران جماعت سلام کہنا بھی اسی قبیل سے ہے ۔رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی زندگی میں کم ازکم تین مرتبہ دوران نماز شامل ہوئے ہیں ،لیکن آپ کانمازیوں کوسلام کہناکسی روایت سے ثابت نہیں ہے، اگریہ افضل عمل ہوتا تو آپ اسے ضرور بجالاتے ،اسی طرح اکابر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے اسے جوا ز کی حد تک برقرار رکھا ہے ۔پھر آپ کے جواب دینے کی جوصورتیں ہیں ان سے بھی اس کاافضل ہوناثابت نہیں بلکہ صرف جواز ثابت ہوتا ہے ۔   [و اللہ  اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:112

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ