السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کونماز پڑھتے دیکھا جس کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے تھا توآپ نے اسے نماز اوروضو دوبارہ کرنے کے متعلق حکم دیا(ابو داؤد) اس حدیث کی صحت کیسی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوبایں حالت نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کی چادر ٹخنوں سے نیچے تھی، آپ نے فرمایا کہ ’’جااوروضو کر۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اوروضو کرکے چلاآیا۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ نے اسے وضو کرنے کاحکم کیوں دیا؟ آپ نے فرمایا کہ ’’وہ اپنی چادرٹخنوں سے نیچے کرکے نماز پڑھ رہاتھا اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا ہے جس کاکپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو۔‘‘ [ابوداؤد ،صلوٰۃ ،۶۳۸،اللباس :۴۰۸۶،مسند امام احمد، ص:۷۹،ج۵]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کی سندکوضعیف قرار دیا ہے۔[ضعیف ابودائود، ص:۵۹، حدیث نمبر:۱۲۴]
اوراس کے ضعف کی وجہ بایں الفاظ بیان کی ہے،کہ اس میں ابوجعفر الانصاری المدنی المؤذن راوی مجہول ہے۔ محدث ابن قطان نے اس کی صراحت کی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’لین الحدیث‘‘ میں لکھا ہے۔ (تقریب) کچھ علما نے وہم کی بنا پر اس کی سند کوصحیح قرار دیا ہے۔ [تعلیق مشکوٰۃ المصابیح :۷۲۱]
امام منذری رحمہ اللہ اور علامہ ترکمانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو مجہول قرار دیا ہے۔[مختصر سنن ابی دائود،ص:۳۲۴، ج۱]
اگرچہ امام ترمذی نے اس سے مروی ایک حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ [الدعوات:۳۴۴۸]
لیکن اسے بیان کرنے والا صرف ایک راوی یحییٰ بن ابی کثیر ہے محدثین کے بیان کردہ اصول کے مطابق ایسا راوی مجہول ہوتا ہے جس سے بیان کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم رحمہ اللہ کی شرط پراس روایت کوصحیح قرار دیا ہے۔ [ریاض الصالحین، حدیث نمبر: ۷۹۷]
لیکن مذکورہ راوی صحیح مسلم کے راویوں میں سے نہیں ہے کہ اس روایت کومسلم کی شرط پرصحیح قرار دیا جائے، ان شرائط کی بنا پر یہ روایت ہمارے نزدیک ضعیف ہے، اس لئے قابل حجت نہیں ہے، اگرچہ اسبال ازارسخت ممنوع فعل ہے، اس فعل کے ارتکاب پروہ شخص اخروی سزاکاحق دار ہوگا اگرصحیح بھی تسلیم کرلیاجائے ،توبھی اسبال ازارکونواقض وضو میں شمار کرنامحل نظر ہے ،کیونکہ کسی محدث نے اس حدیث سے اس قسم کا مسئلہ مستنبط نہیں کیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضو کرنے کے متعلق غالباً اس لئے کہا کہ بلاشبہ وضو کرنے سے گناہ اور اسباب گناہ، مثلاً: غصہ وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں لیکن اسبال ازارنے وضو کی اس فضیلت کوغیر مؤثر کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دوبارہ وضو کی تلقین کرکے اس کوتاہی کی طرف متوجہ کرناچاہتے تھے جس نے اسے وضو کی اس فضیلت سے محروم کردیا تھا ۔ [و اللہ اعلم بالصواب]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب