السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خرابی موسم کی وجہ سے نماز مغرب کے فورًا بعد نماز عشاء ادا کرناشرعاًکیا حیثیت رکھتا ہے جبکہ عشا ء کی نماز کے لئے اذان وغیر ہ نہیں دی گئی تھی اورنہ ہی مغرب کی سنتیں ادا کی گئی ہیں؟ ہم نے اپنے علما سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر نماز مغرب اور نمازعشاء اس طرح اکٹھی پڑھتے کہ نمازمغرب کولیٹ کرکے نمازعشاء کے ساتھ ملاکرپڑھتے تھے۔کیا ایسے حالات میں سفر کے علاوہ نماز کودوسری نماز کے ساتھ اکٹھا پڑھاجاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین اسلام کی بنیاد تخفیف اورسہولت پر ہے ،اس میں بلاوجہ کسی کومشقت اورتنگی میں نہیں ڈالا گیا ،ارشا د باری تعالیٰ ہے کہ ’’دین کے معاملات میں تم پر کوئی تنگی نہیں۔‘‘ [۲۲/الحج :۷۸]
’’ اللہ تعالیٰ نے انسانی کمزوری کے پیش نظر تمہارے ساتھ تخفیف کاارادہ فرمایا۔‘‘ [۴/النسآء:۲۸]
نیزفرمایا :’’ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرناچاہتے ہیں اس کاتمہیں مشقت اورتنگی میں ڈالنے کاکوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ [۲/البقرہ :۱۸۵]
نمازوں کے سلسلہ میں بھی اس سہولت اورآسانی کوپیش نظر رکھاگیا ہے کہ سفر ،بیماری ،خوف ،بارش وغیرہ اورکسی اہم مصروفیت کے پیش نظر دو نمازوں کواکٹھا کیاجاسکتا ہے، پھرانہیں اکٹھا کرکے ادا کرنے کی دوصورتیں ہیں:
1۔ ایک نماز کودوسری نماز کے وقت جمع کرکے ادا کرنا اسے جمع حقیقی کہا جاتا ہے اس کی دواقسام ہیں:
(الف) جمع تقدیم :ایک نماز وقت سے پہلے دوسری کے ساتھ جمع کی جائے، مثلاً: ظہر کے ساتھ عصر اورمغرب کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرنا۔
(ب) جمع تاخیر :ایک نماز وقت کے بعد مؤخر کرکے دوسری نماز کے ساتھ جمع کی جائے، مثلاً: عصر کے ساتھ ظہراورعشاء کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کرنا ۔
2۔ جمع صوری:پہلی نماز کومؤخر کرکے اس کے آخری وقت میں اوردوسری نماز کومقدم کرکے پہلے وقت میں پڑھ لینا،اس طرح بظاہر دونوں نمازیں جمع ہوجائیں گی لیکن انہیں اپنے اپنے اوقات میں ہی ادا کیا جائے گا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوران سفرنما ز جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح پڑھناثابت ہے، جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرسورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہراور عصر کواسی وقت پڑھ لیتے اوراگرسورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے توظہرکومؤخر کرکے عصر کے ساتھ ادا کرتے، اسی طرح اگرسورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تومغرب اورعشا ء اسی وقت پڑھ لیتے ۔ [ابوداود، الصلوٰۃ :۱۲۲۰]
اسی طرح نمازوں کومذکورہ طریقے کے مطابق ادا کرنے کی ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ[بیہقی، ص:۱۶۲،ج ۳]
اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ [مسند امام احمد،ص:۳۶۷،ج ۵]
سفر کے علاوہ حضر میں بھی ناگزیرحالات کے پیش نظر دونمازوں کوجمع کیاجاسکتا ہے بشرطیکہ اسے مستقل عادت نہ بنایا جائے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہراور عصر کی آٹھ رکعات اورمغرب اورعشاء کی سات رکعات ایک ساتھ پڑھیں ۔ [صحیح بخاری ،مواقیت :۵۴۳]
ایک روایت میں ہے کہ راوی حدیث نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ توآپ نے جواب دیا کہ ایسا امت کی سہولت کے پیش نظر کیا گیا تاکہ یہ امت کسی تنگی اورمشقت میں مبتلا نہ ہو۔ مسند امام احمد، ص:۲۲۳،ج ۵]
تاہم دو نمازوں کوجمع کرناسخت ضرورت، مثلاً: بارش اورشدیدآندھی وغیرہ ہوتو ایسا کیا جاسکتا ہے۔ ہماے ہاں عام طور پر کاروباری حضرات کا معمول ہے کہ وہ سستی یاکاروباری مصروفیات کی وجہ سے دونمازیں جمع کرلیتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے بلکہ بعض اوقات روایات کے مطابق ایسا کرناسخت گناہ ہے۔ناگزیر حالات کے علاوہ ہرنماز کواس کے وقت پر ہی اد ا کرنا ضروری ہے۔ جب سفر کے علاوہ کسی سخت مجبوری کی بنا پر دونمازوں کواکٹھا کرکے ادا کیا جائے تو پہلی نماز کی سنتیں وغیرہ اد انہیں کی جاتیں کیونکہ اس سے جمع کامقصد فوت ہوجاتا ہے اس کے علاوہ دوسری جماعت کے لئے صرف اقامت ہی کافی ہے اذان دینے کی ضرورت نہیں۔[ صحیح مسلم ،الحج :۱۲۱۸]
واضح رہے کہ اگربارش کی وجہ سے دونمازوں کواکٹھاپڑھا جائے تومسجد میں دوسری نماز کے لئے اذان دی جائے اگربارش جاری ہو تو ’’اَلاَ صَلُّوْا فِی الرِّحَالِ‘‘ کے الفاظ کہے جائیں اورمسجد میں رہائش رکھنے والے باقاعدہ جماعت کااہتمام کریں اور اگربارش رک گئی ہوتومعمول کے مطابق اذان کہی جائے تاکہ جوحضرات بارش کی وجہ سے پہلی نماز میں حاضر نہیں ہوسکے تھے وہ دوسری نماز باجماعت مسجد میں ادا کریں۔ [و اللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب