السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جمعہ کی پہلی اذان کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بعض لوگ اسے سنت کہتے ہیں ،کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ اذان جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے منبر پربیٹھ جاتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرصدیق اورعمر رضی اللہ عنہما کے دورخلافت میں یہی معمول رہا ، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں مدینہ کی آبادی میں اضافہ ہوگیا توآپ نے لوگوں کی سہولت کے لئے مزید ایک اذان کااضافہ کردیا جوبازار میں ’’زوراء‘‘ نامی مقام پر دی جاتی تھی۔جیسا کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہوگئے توآپ نے مقام زوراء پرتیسری اذان کااضافہ فرمایا۔ [صحیح بخاری، الجمعہ : ۹۱۲]
شرعی اعتبار سے نماز کے لئے تکبیرکوبھی اذان کہاجاتا ہے ،اس لئے عثمانی اذان ،اضافہ کے اعتبار سے تیسری اورترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے بعض روایات میں اس عثمانی اذان کواذان ثانی سے بھی تعبیر کیاگیاہے۔ [صحیح بخاری، ۹۱۵]
حقیقی اذان نبوی کے مقابلہ میں اسے دوسری اذان کہاجاتا ہے اگرچہ ترتیب کے اعتبا ر سے پہلی اذان کہاجاتا ہے۔واضح رہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آبادی میں اضافہ کی وجہ سے بازار میں ایک اونچے مقام پراذان کہنے کااہتمام، اس لئے کیاتھا تاکہ لوگوں کوجمعہ کے متعلق بآسانی خبردار کیاجائے۔اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے اختیار کرلیا ،اگرآج بھی ایسے حالات ہوں تواس عمل کوبرقرار رکھا جاسکتا ہے لیکن عصرحاضر میں تقریباً ہرمسجد میں لاؤڈسپیکر موجود ہے جس کے ذریعے دوردرازعلاقوں میں اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے اورلوگ جمعہ کے وقت سے باخبر ہوجاتے ہیں اندریں حالات کسی ہنگامی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ واضح رہے کہ مسجد میں ہی دونوں اذانوں کااہتمام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاطریقہ نہیں ہے اگرکوئی اس پرعمل کرناچاہتا ہے تواسے بازارمیں جاکرکسی اونچی جگہ پرکھڑے ہوکر پہلی اذان دینے کاشرف پورا کرلینا چاہیے ۔اپنے مؤقف کی تائید میں یہ کہنا اذان عثمانی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں سے ایک خلیفہ کی سنت ہے جسے مضبوطی سے تھامنے کی تلقین کی گئی ہے ۔یہ اس لئے درست نہیں ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی وہی سنت اختیار کی جاسکتی ہے جوسنت نبوی کے خلاف نہ ہو ،لیکن ہم اسے بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان دوسری اذانوں پرقیاس کرتے ہوئے شروع کردی تھی وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کے لئے اذان اس لئے کہی جاتی ہے تاکہ لوگوں کونماز کے وقت سے خبردار کیاجاسکے چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی اذان سے سب کواطلاع ہوجائے اس لئے انہوں نے یہ اذان شروع کر دی۔ یہ دعویٰ کرنا کہ پہلی اذان کے جواز پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع سکوتی ہے، یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان کہنا بدعت ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ، ص:۱۴۰،ج ۳]
اس کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی دارالحکومت کوفہ میں اسے ختم کرکے اذان نبوی کوہی جاری رکھنے کاحکم جاری کیا تھا۔ [تفسیر قرطبی، ص:۱۰۰،ج ۱۸]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نویں صدی ہجر ی کے نصف تک مغرب کے علاقے میں جمعہ کے لئے صرف ایک اذان دینے کاحکم دیا تھا۔ [فتح الباری، ص:۵۰۷،ج ۲]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی اذان کے متعلق میں عہد رسالت ہی کے طرز عمل کوزیادہ پسند کرتا ہوں۔ [کتاب الامّ، ص:۱۹۵،ج ۱]
تفصیل بالا کے پیش نظر ہمارے نزدیک سنت نبوی کے مطابق جہاں ایک اذان دینے کاعمل ہے، وہاں اسے برقرا ر رہناچاہیے ،کسی خاص مکتب فکر کے لوگوں کوخوش کرنے کے لئے اس نبوی طرز عمل کوبدلنا قطعاً مستحسن نہیں ہے، البتہ جہاں دواذانیں ہوتی ہیں اگروہاں کسی قسم کے فتنہ و فساد کااندیشہ نہ ہو تو وہاں ایک اذان پراکتفا کرنے کااہتمام ہوناچاہیے۔ اگرحالات ساز گار نہ ہوں تو ان کے سازگار ہونے تک دونوں اذانوں کوبرقرار رکھنے کی گنجائش ہے ،لیکن سنت نبوی پرعمل کرنے کے لئے ذہن سازی کرتے رہناچاہیے ایسے حالات کوباہمی اختلاف وجدال کاذریعہ نہ بنایاجائے ۔ [واللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب