سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) تشہد میں انگشت تشہد کو حرکت دینا

  • 12016
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1731

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشہد میں انگشت شہاد ت کوحرکت دینا چاہیے یا نہیں؟ اگر دینا چاہیے توکب اورکیسے ہو؟اس مسئلہ کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوران نما ز تشہد کی حالت میں انگشت شہادت کوحرکت دینا نہ صرف رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے بلکہ تمام انبیا علیہم السلام  کا طریقہ مبارکہ ہے چنانچہ امام حمیدی رحمہ اللہ  نے ایک آدمی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ اس نے شام کے کسی گرجا میں انبیا علیہم السلام  کے مجسموں کودیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اوراپنی انگشت شہاد ت کواٹھائے ہوئے تھے۔    [مسندحمیدی، ص: ۱۸۳، حدیث نمبر ۲۴۸]

                رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس سنت کوزندہ رکھا بلکہ اگرکسی سے اس سلسلہ میں کوتاہی ہوجاتی تویہ حضرات اس کا مؤاخذہ کرتے۔     [مصنف ابن ابی شیبہ، ص:۳۶۸،ج ۲]

                لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اس سنت کوباہمی اختلاف کی نذر کردیا گیا۔ اس اختلاف کی بدترین صورت یہ ہے کہ اس سنت کوصحت نماز کے منافی قرار دیا گیا، چنانچہ خلا صہ کیدانی احناف کے ہاں ایک معروف کتاب ہے جس کے متعلق سرورق پرلکھا ہے:

اگرطریق صلوٰۃ کہہ وانی      اگرنخوانی خلاصہ کیدانی

                اگر تونے خلاصہ کیدانی نہ پڑھا تونماز کے طریقہ کے متعلق تجھے کچھ پتہ نہیں ہوگا ۔اس کتاب کاپانچواں باب ’’محرمات‘‘ کے متعلق ہے ۔اس میں ان چیزوں کی نشاند ہی کی گئی ہے ۔جن کا ارتکاب دوران نما ز حرام اورناجائز ہے بلکہ ان کے عمل میں لانے سے نماز باطل قرار پاتی ہے۔ ان میں سرفہرست بآواز بلند آمین اوررفع الیدین کوبیان کیا گیا ہے اس کی مزید وضاحت بایں الفاظ کی ہے: ’’اَلْأَشَارَۃُ بِالسَّبَّابَة کَأَہْلِ حَدِیْثٍ‘‘ (خلاصہ کیدانی، ص ۱۱)’’بار بار انگلی کے ساتھ اشارہ کرناجیسا کہ اہل حدیث کرتے ہیں‘‘ یعنی یہ عمل ان کے ہاں نماز کو باطل کردیتا ہے ،ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مذکورہ بالاعربی عبارت کافارسی زبان میں بایں الفاظ ترجمہ کیا ہے ’’اشارہ کردن بانگشت شہاد ت مانندقصہ خواناں‘‘ اس عبارت میں اہل حدیث کاترجمہ ’’قصہ خواناں ‘‘کیا گیا ہے گویا اہل حدیث محض داستان گواورقصہ خوان ہیں، مصنف خلاصہ کی اس نار واجسارت کے پیش نظر احناف کے معروف فقیہ اورعالم دین ملا علی قاری نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ لکھتے ہیں کہ مصنف نے بہت بڑی غلطی کاارتکاب کیاہے ،جس کی وجہ قواعد اصول اورمراتب فروع سے ناواقفیت ہے۔ اگر اس کے متعلق حسن ظن سے کام نہ لیں اور اس کے کلام کی تاویل نہ کریں،تواس کا کفر واضح اورارتد اد صریح ہے۔ کیا یہ مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک ثابت شدہ سنت کوحرام کہے اور ایسی چیز سے منع کرے جس پر عامۃ العلما پشت درپشت عمل کرتے چلے آتے ہیں ۔     [تزئین العبادۃ لتحسین الاشارۃ، ص:۶۷]

                بہرحال دوران تشہد انگشت شہادت کوحرکت دینا، مصنف خلاصہ کیدانی کے نزدیک ’’خاکم بدھن ‘‘ایک ناز یبا حرکت ہے جس سے نماز باطل ہوتی ہے ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ہَفَوَاتِ الْفَہْمِ وَالْقَلَمِ‘‘ جبکہ تشہد میں انگلی اٹھانا بڑی بابرکت اور عظمت والی سنت ہے۔ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان ہے کہ ’’تشہد میں انگلی اٹھانا شیطان کے لئے دہکتے لوہے سے زیا دہ ضرب کاری کاباعث ہے۔‘‘      [مسندامام احمد، ص:۱۱۹،ج۲]

                امام حمیدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ جب نماز ی اپنی انگشت شہادت کوحرکت دیتا ہے توشیطان اس سے دور رہتا ہے اس وجہ سے نمازی کودوران نماز سہو ونسیان نہیں ہوتا۔     [مسند حمیدی: ۱۸۵]

                نیز یہ حرکت اوراشارہ نماز میں یکسوئی کاباعث ہے ،اس سے خیالات منتشر اورپراگندہ نہیں ہوتے ،نماز ی ،خارجی وساوس اور نماز کے منافی سو چ وبچار سے محفوظ رہتا ہے، کیونکہ انگشت شہاد ت کابراہ راست دل سے تعلق ہے۔ اس کے حرکت کرنے سے دل بھی رکا رہتا ہے، جیسا کہ حدیث بالا میں اس کااشارہ موجود ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ دوران نماز شیطان کواپنے سے دور رکھنے کے لئے انگشت شہادت کی یہ حرکت بہت کارگر ہے۔     [مسند ابی یعلیٰ، ص:۲۷۵،ج۲۷]

                ایک روایت میں ہے کہ شیطان اس سے بہت پریشان ہوتا ہے۔    [سنن بیہقی، ص:۱۳۲،۲۷]

                حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  اس کی ترغیب بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز (کے قعدہ )میں بیٹھتے تودونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پررکھتے اوراپنے دائیں کی وہ انگلی اٹھالیتے جوانگوٹھے سے متصل ہے، پھر اس کے ساتھ دعامانگتے۔    [صحیح مسلم، المساجد: ۵۸۰]

                جوحضرات اس اشارہ اورحرکت کے قائل ہیں ان میں سے بعض کامؤقف یہ ہے کہ تشہد میں ’’أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کہتے وقت انگشت شہادت اٹھائی جائے اورجب یہ شہادت توحید ختم ہوجائے تواپنی انگلی کونیچے کرلیا جائے ،ان کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:

                حضرت خفاف بن ایماء  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   جب تشہد کے لئے بیٹھتے تو اس سے اشارہ کرتے جس سے آپ کی مراد توحید ہوتی۔     [بیہقی ،ص:۱۳۳،ج ۲]

                 علامہ صنعانی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ دوران تشہد اشارے کامقام لاالہ الا  اللہ  کہتے وقت ہے کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ  نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کاعمل مبارک نقل فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس اشارہ سے مراد توحید واخلاص ہے ۔    [سبل السلام، ص:۳۱۹،ج ۱]

                لیکن اس حدیث میں کسی قسم کی صراحت نہیں ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   لاالہ الا  اللہ  کہنے پراشارہ کرتے تھے ،پھر یہ حدیث معیار محدثین پر پوری بھی نہیں اترتی،اس لئے محل اشارہ کی تعیین کے لئے کوئی صریح اورصحیح حدیث مروی نہیں ہے بلکہ بظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع تشہد سے انگلی اٹھانا چاہیے اور سلام پھیر نے تک اسے حرکت دیتے رہناچاہیے۔ چنانچہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ عمل مبارک بایں الفاظ بیان کرتے ہیں ’’سب نے دیکھا کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  انگلی ہلارہے تھے اور اس کے ساتھ دعا کررہے تھے ۔‘‘     [ابوداؤد، الصلوٰۃ :۷۲۷]

                علامہ البانی رحمہ اللہ  اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں انگشت شہادت کے متعلق مسنون طریقہ بیان ہوا ہے کہ اس کااشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیونکہ دعا سلا م سے متصل ہے۔     [صفتہ الصلوٰۃ :۱۵۸]

                برصغیر کے نامور محدثین کابھی یہی مؤقف ہے کہ انگشت شہادت کی حرکت شروع تشہد سے آخر تشہد تک جاری رہنی چاہیے ۔  [عون المعبود ،ص:۳۷۴،ج۱ ، تحفۃ الاحوذی، ص:۲۴۱،ج ۱؛مرعاۃ المفاتیح، ص:۴۶۸،ج ۲]

بعض روایات میں ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  دوران تشہد اپنی انگلی کوحرکت نہیں دیتے تھے ۔    [ابوداؤد ،الصلوٰۃ :۹۸۹]

                لیکن عدم حرکت کایہ اضافہ شاذ ہے کیونکہ مذکورہ روایت محمد بن عجلان کی بیان کردہ ہے جومتکلم فیہ راوی ہے، اس سے بیان کرنے والے خالد الاحمر ،عمر وبن دینار ،یحییٰ اور زیاد چارراوی ہیں مذکورہ اضافہ بیان کرنے والے صرف زیاد ہیں جوباقی رواۃ کی مخالفت کرتے ہیں اگرثقہ راوی دوسرے ثقات کی مخالفت کرے تواس کی بیان کردہ روایت کو شاذ قرار دیاجاتا ہے، علامہ ا لبانی رحمہ اللہ  نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔     [تمام المنۃ ، صفتہ الصلوٰۃ ]

                محمد بن عجلان کے شیخ حضرت عامر بن عبد اللہ  سے جب محمد عجلان کے علاوہ دیگر ثقہ راوی بیان کرتے ہیں تواس اضافہ کونقل نہیں کرتے ،پھر اضافہ کے شاذ اور ناقابل حجت ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ  نے ابن عجلان رحمہ اللہ  سے اس روایت کومذکورہ حدیث کے بغیرہی بیان کیا ہے۔     [صحیح مسلم، المساجد: ۵۷۹]

                علامہ ابن قیم  رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اضافہ والی روایت نافی ہے۔ جن روایات میں اشارہ کاذکرہے وہ مثبت ہیں اورمحدثین کے بیان کردہ اصول کے مطابق مثبت روایت ،نافی پرمقدم ہوتی ہے ۔    [زاد المعاد، ص:۲۳۸،ج ۱]

                مختصر یہ ہے کہ تشہد بیٹھتے ہی انگشت شہاد ت کواٹھا کراسے مسلسل ہلاتے رہناچاہیے اوراس عمل کے منافی جوروایات ہیں ،وہ شاذ ،منکر اورناقابل حجت ہیں ،اب ہم تشہد بیٹھتے وقت دائیں ہاتھ اوراس کی انگلیوں کی کیفیت بیان کرتے ہیں۔ محدثین کرام رحمہم اللہ نے اسے تین طرح سے بیان کیا ہے جوحسب ذیل ہے :

٭  دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کوبند کرلیاجائے، پھر انگوٹھے کوانگشت شہادت کی جڑ میں رکھ کر انگشت شہادت سے اشارہ و حرکت ہو۔حدیث میں ہے کہ ’’رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  جب تشہد کے لئے بیٹھتے تواپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اوردایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پررکھتے اورتریپن (53)کی گرہ لگاتے، پھر انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔‘‘     [صحیح مسلم ،المساجد :۵۸۰]

                عرب کے ہاں گنتی کاایک معروف طریقہ ہے کہ تریپن(53) کاعدد بتانے کے لئے پہلی تین انگلیوں کوبند کرکے انگوٹھے کوانگشت شہادت کی جڑ میں رکھ دیتے ،حدیث میں تریپن کی گرہ لگانے کایہی مطلب ہے ۔

٭  تمام انگلیوں کوبند کرکے انگوٹھے کودرمیانی انگلی پررکھا جائے اورانگشت شہادت سے اشارہ کیاجائے ،حدیث میں ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  دوران تشہد اپنے دائیں ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کرلیتے ،پھر انگوٹھے کے ساتھ متصل انگلی سے اشارہ کرتے ۔              [صحیح مسلم ، المساجد :۵۸۰]

                ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کودرمیانی انگلی پر رکھ لیتے ۔    [صحیح مسلم ،المساجد :۵۷۹]

٭  پہلی دوانگلیوں کوبند کرلیاجائے، پھر درمیانی انگلی اورانگوٹھے سے حلقہ بناکر انگشت شہادت سے اشارہ کیاجائے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ’’رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کوبند فرمایا، پھر درمیانی انگلی اورانگوٹھے کے ساتھ حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔‘‘     [ابوداؤ د ،الصلوٰۃ ۷۲۶]

 ان تینوں صورتوں کوگا ہے بگاہے استعمال کرتے رہنا چاہیے، اب ہم اس کافلسفہ بیان کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں مولانا محمد صادق سیالکوٹی مرحوم کے الفاظ مستعار لیتے ہیں ،مولانا فرماتے ہیں کہ ’’جب انگلی کوکھڑا کیاتو اس نے توحید کی گواہی دی کہ  اللہ  ایک ہے، پھرجب انگلی کوباربار ہلاناشروع کیا تو اس نے باربار ایک، ایک، ایک ہونے کااعلان کیا، مثلاً: دوران تشہد اگرانگلی کوسات یا آٹھ بار ہلایا تواتنی ہی مرتبہ انگلی نے توحید کااعلان کیا گویا انگلی کھڑی ہوئی اوربول بول کرایک  اللہ ،ایک  اللہ  کہتی رہی اورنمازی کے کیف کایہ عالم ہوکہ نظرانگلی کے رفع اورحرکت پررکھے ،دماغ وحدانیت کو آبشار دل پرگرائے اورقلب عطشاں پرآب حیات پیا جائے۔‘‘ (صلوٰۃ الرسول) حاصل کلام یہ ہے کہ انگشت شہادت کودوران تشہد حرکت دینا چاہیے اوراشارہ اورحرکت سلام پھیرنے تک برقرار رہے ،حرکت نہ دینے کے متعلق جوروایات ہیں شاذ اورناقابل حجت ہیں ،نیز نمازی کی نظر دوران حرکت انگلی اوراس کے اشارہ پرمرکوز رہے اور اس سے تجاوز نہ کرے، اس کافائدہ یہ ہے کہ نماز ی داخلی انتشار اور خارجی خیالات سے محفوظ رہتا ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:105

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ