سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) نمازی کو سترہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم؟

  • 12015
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1766

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ نے اہل حدیث شمارہ نمبر۲ مجریہ ۱۰جنوری ۲۰۰۴ء میں نمازی کے سترہ کے متعلق لکھا ہے کہ ’’رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازی کو سترہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کاحکم دیا اور بغیر سترہ کے نماز پڑھنے سے منع کیاہے اورآپ کا امروجوب اورنہی تحریم کے لئے ہے۔ ہاں، اگرکوئی قرینہ ہوتوامروجوب کے بجائے استحباب کے لئے ہوتا ہے لیکن یہا ں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے کہ آپ کے امر کووجوب کے بجائے استحباب پرمحمول کیاجائے ،پھر نہی سے مراد بھی نہی تحریم ہے جس کامطلب یہ ہے کہ نماز کے لئے سترہ بنانا واجب ہے اوراس کے بغیرنماز اداکرنا حرام ہے‘‘ (الیٰ آخرہ)

                لیکن ہمارے سامنے کچھ ایسی احادیث اورآثار وقرائن ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امروجوب کے لئے نہیں بلکہ استحباب کے لئے ہے، آپ ان کی وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 حضر ت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے والد حضرت عباس  رضی اللہ عنہ کے ہمراہ شہرسے باہر ہماری رہائش گاہ میں تشریف لائے ،وہاں صحرا میں آپ نے بایں حالت نماز ادا کی کہ آپ کے آگے سترہ نہیں تھا۔ [ابوداؤد ،الصلوٰۃ : ۷۱۸]

وضاحت:  ہم نے اپنے موقف کے لئے جواحادیث پیش کی تھیں وہ اپنے مفہوم میں صریح تھیں ،اس کے برعکس یہ جواحادیث پیش کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں، اگرصحیح ہیں تواپنے مفہوم میں صریح نہیں ہیں۔ پیش کردہ حدیث کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ  کا تبصرہ ہے کہ یہ باطل ہے ۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ عباس بن عبید  اللہ  بن عباس ہاشمی جواپنے چچا حضر ت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما  سے بیان کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنے چچا کونہیں پایا ،اس انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استد لال ہے۔[محلٰی ابن حزم : ۴/۱۳]

   حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے اس راوی کو’’مقبول ‘‘لکھا ہے۔     [تہذیب التہذیب :۵/۱۲۳]

                مقبول راوی کی روایات اس وقت قبول ہوتی ہیں جب اس کی متابعت ہو،لیکن مذکورہ حدیث کی متابعت کسی صحیح یاحسن حدیث سے نہیں ہوتی، اگر ایک ضعیف حدیث کے مختلف طرق ہوں تو بعض اوقات اسے حسن لغیرہ کادرجہ حاصل ہوجاتا ہے ،لیکن متعدد ضعیف روایا ت کااجتماع انفرادی کمزوری کی تلافی نہیں کرسکتا ۔بہرحال یہ روایت ناقابل استدلال ہے، لہٰذا سترہ کاوجوب اپنی جگہ برقرار رہے گا،نیز پیش کردہ حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ گدھی اورکتیا آپ کے آگے کھیل رہی تھیں ،آپ نے ان کی کوئی پروا نہیں کی۔ حدیث کایہ مضمون ان صحیح اورصریح احادیث کے خلاف ہے ،جن میں صراحت ہے کہ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اورایک بکری دوڑتی ہوئی آئی، وہ آپ کے آگے سے گزرناچاہتی تھی ۔آپ نے اپنا  بطن مبارک دیوار کے ساتھ لگادیا حتی کہ اس بکری کوآپ کے پیچھے سے گزرناپڑا ۔     [صحیح ابن خزیمہ :۸۲۷]

                یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گدھی اورکتیا آپ کے سامنے گھومتی رہیں اورآپ اس کی پروا نہ کریں، جبکہ آپ ہی نے فرمایا کہ ’’کتا، گدھا اورعورت ،ان کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز کاخشوع متاثر ہوتا ہے۔‘‘     [صحیح مسلم، الصلوٰۃ :۲۶۶]

                محدثین کرام  رحمہ اللہ کاایک اصول یہ بھی ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول وفعل میں تعارض ہوتوقول کوترجیح دی جاتی ہے اورفعل کوخصوصیت پرمحمول کیاجاتا ہے ۔چنانچہ پیش کردہ حدیث میں رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کاایک فعل بیان ہوا ہے ،لیکن آپ کے متعدد اقوال اس کے معارض ہیں ،لہٰذا ان اقوال کوترجیح دی جائے گی ،مختصر یہ ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل ہی نہیں کہ اسے صحیح اورصریح احادیث کے مقابلہ میں پیش کیاجائے ،اگرکوئی ان کے معارضہ پراصرار کرتا ہے تو اس میں آپ کا فعل بیان ہوا ہے ،جوآپ کے فرامین کے مقابلہ میں مرجوح ہے۔

٭  حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے مسند البزار کے حوالہ سے حدیث نقل کی ہے :’’رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نمازپڑھ رہے تھے اورآپ کے سامنے کوئی چیز بطورسترہ نہ تھی ۔ ‘‘     [فتح الباری :۱/۲۶۶]

وضاحت:  علامہ شوکانی رحمہ اللہ  نے حدیث کوبایں الفاظ نقل فرمایا ہے کہ آپ کے سامنے کوئی ایسی چیز بطورسترہ نہ تھی جوہمارے اورآپ کے درمیان حائل ہو۔     [نیل الاوطار:۳/۱۲]

ہمارے نزدیک اس حدیث کی صحت مسلم نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق راوی ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔     [تہذیب التہذیب :۶/۳۷۶]

                جن حضرات نے اسے صحیح کہاہے انہوں نے اسے عبدالکریم الجزری خیال کیا ہے علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس کی صحت کوتسلیم کرتے ہوئے یہ جواب دیا ہے کہ اس سے مطلق سترے کی نفی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایسے سترہ کی نفی کرتی ہے جولوگوں اورآپ کے درمیان حائل ہو۔جیسے بلند دیوار وغیرہ،جودونوں کے درمیان ایک دوسرے کو دیکھنے سے مانع ہو ۔محدث عراقی رحمہ اللہ  نے بھی یہی مؤقف اختیار کیاہے ۔     [مرعاۃالمفاتیح :۳/۴۹۹]

                لہٰذا ایسی محتمل روایت صحیح اورصریح احادیث کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی ۔واضح رہے کہ اس حدیث کے بنیادی الفاظ جو امام بخاری رحمہ اللہ  نے نقل کیے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:

                ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک گدھی پرسوار ہوکرآیا اور میں اس وقت قریب البلوغ تھا ،رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   اس وقت دیوار کے سواکسی اورچیز کاسترہ کرکے لوگوں کونماز پڑھارہے تھے ،صف کے کچھ حصے سے گزرکرمیں اپنی سواری سے اترا اورگدھی کوچرنے کے لئے چھوڑدیااورخود صف میں شامل ہوکر شریک نماز ہوگیا ۔کسی نے اس وجہ سے مجھ پراعتراض نہیں کیا۔‘‘ [صحیح بخاری :۴۳۹]

                امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس حدیث سے سترہ کوثابت کیاہے ،جبکہ امام بیہقی رحمہ اللہ  نے اس سے سترہ کی نفی کوثابت کیاہے اوراس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے ’’سترہ کے بغیرنماز پڑھنا ‘ ‘لیکن حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ کامعاملہ انتہائی تعجب خیز ہے کہ وہ امام بخاری  رحمہ اللہ  کے قائم کردہ عنوانات سے احادیث کی مطابقت اورصحت استدلال کے لئے بڑی کوشش وکاوش کرتے ہیں ۔لیکن اس مقام پروہ امام بیہقی رحمہ اللہ  سے متاثر نظرآتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ اس حدیث سے سترے کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ  کااستدلال محل نظرہے ۔[فتح الباری: ۱/۷۳۹]

                 اگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اورامام بیہقی رحمہ اللہ  دقت نظر سے کام لیتے تومعاملہ اس کے برعکس ہوتا ،امام بخاری  رحمہ اللہ کے پیش نظریہ نکتہ تھا کہ حدیث میں ’’غیر جدار ‘‘ کے الفاظ ہیں اورغیرلفظ ہمیشہ کسی سابق کی صفت ہواکرتا ہے ۔اس لئے حدیث کامعنی یہ ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  دیوار کے علاوہ کسی دوسری چیز کوسترہ بناکرنماز پڑھ رہے تھے۔ نفی جدار کافائدہ بھی اس وقت ہوگا کہ وہاں کسی دوسری چیز کا سترہ ہو بصورت دیگر یہ نفی لغو ہو گی۔ نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دوران جماعت میرے صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرنے کے باوجود مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔کیونکہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے آگے سترہ موجود تھا وہاں سترہ مقتدی حضرات کے لئے کافی تھا، اس لئے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔اس حدیث پر ہم نے اپنی زیر ترتیب شرح بخاری میں سیر حاصل بحث کی ہے ۔قارئین سے استدعا ہے کہ وہ اس کی تکمیل کے لئے دعا کرتے رہیں ۔

٭  امام مالک رحمہ اللہ اس سلسلہ میں ایک صحابی کاعمل نقل کرتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ  نے صحر ا میں ستر ہ کے بغیر نماز پڑھی۔  [مؤطا امام مالک، باب سترۃ المصلی فی السفر]

وضاحت:   اس حدیث میں صحابی کانہیں بلکہ ایک تابعی کاعمل پیش کیا گیا ہے کیونکہ حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ  تابعی ہیں۔ صحیح احادیث کے مقابلہ میں ایک تابعی کے عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،ہاں اس سے پہلے حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کاعمل بیان کیا گیا ہے کہ وہ سفر میں بھی سترہ کااہتمام کرتے تھے ۔     [مؤطاامام مالک]

                 حضرت قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دوستونوں کے درمیان نماز پڑھ رہاتھا کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گدی سے پکڑ کرسترہ کے قریب کردیا اورفرمایا کہ اس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھ ۔     [صحیح بخاری ،تعلیقاًمع الفتح : ۱/۵۷۷]

                مصنف ابن ابی شیبہ میں اس روایت کوموصولاًبیان کیاگیا ہے۔     [مصنف ابن ابی شیبہ :۳/۳۷۰]

                حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے توسترے کی طرف رخ کرکے پڑھے اوراس کے قریب کھڑا ہو، تا کہ شیطان اس کے آگے سے نہ گزر سکے ۔     [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۲۷۹]

                حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  سترے کااس قدر اہتمام کرتے کہ اگر مسجد میں کوئی ستون نہ ملتا توحضرت نافع رحمہ اللہ  سے کہتے کہ تم اپنی پیٹھ میری طرف کرکے بیٹھ جاؤ تاکہ میں تیری طرف رخ کرکے نمازپڑھوں۔     [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۲۷۹]

                حضرت عبد اللہ  بن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ نمازی کی زیادتی اوربے انصافی یہ ہے کہ وہ ستر ہ کے بغیرنماز پڑھے ۔     [بیہقی :۲/۲۸۵]

                حضرت سلمہ بن الاکوع صحر ا  میں کسی پتھر کوسامنے گاڑ لیتے، پھراس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے۔                   [مصنف ابن ابی شیبہ :۱/۲۷۸]

                ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم تونماز کے لئے سترہ کاازحد اہتمام کرتے ۔

٭  ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحرا میں بایں حالت نماز اداکی کہ آپ کے آگے کوئی چیز نہ تھی۔                         [مسند امام احمد :۱/۴۴۴]

وضاحت:  اس روایت کوسید سابق رحمہ اللہ نے سترہ کے استحباب کے پیش نظر اپنی کتاب فقہ السنہ میں بیان فرمایاہے لیکن یہ روایت ناقابل استدلال ہے ،کیونکہ اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیاہے۔      [مجمع الزوائد : ۲/۶۶]

    اس کے علاوہ یہ مدلس بھی ہے اوراس کی مذکورہ روایت ’’عن ‘‘کے صیغہ سے بیان کی ہے ۔     [تمام المنۃ:۳۰۵]

                علامہ البانی رحمہ اللہ نے (الاحادیث الضعیفہ رقم :۵۸۰۴)اورعلامہ عبید  اللہ  مبارک پوری رحمہ اللہ  نے اس روایت پرسیر حاصل بحث کی ہے۔     [مرعا ۃالمفاتیح :۲/۵۰۴]

                علامہ بیہقی رحمہ اللہ  نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ مذکورہ روایت کی تائید حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے بھی ہوتی ہے لیکن تائید میں پیش کی جانے والی روایت کے متعلق امام ابن حزم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ یہ منقطع ہے کیونکہ عباس بن عبید اللہ  نے اپنے چچا حضرت فضل بن عباس کونہیں پایا ،اس کے علاوہ ماہر فن ابن قطان فرماتے ہیں کہ عباس بن عبید  اللہ  مجہول ہے ،جس کے حالات کاکوئی اتاپتا نہیں ہے۔     [تمام المنۃ :۳۰۵]

٭  نمازمغرب سے پہلے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سنتیں پڑھنے کے لئے ستونوں کی طرف جلدی کرتے، مسجد نبوی میں اس قدر ستون نہ تھے کہ تمام صحابہ کے لئے سترہ کا کام دے سکتے ،اس سے معلوم ہوا کہ دیگرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سترہ کے بغیر نماز پڑھتے تھے ۔

وضاحت :  جس روایت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے اسے حضر ت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مؤذن اذان دیتا توکبارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوجاتے اورجلدی جلدی ستونوں کی طرف رخ کرکے نما زپڑھتے ۔یہاں تک کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   تشریف لاتے ۔     [صحیح بخاری :۶۲۵]

                اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سترہ کااہتمام کرتے تھے ۔کبارصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سترہ کے لئے ستونوں سے کام لیتے ، باقی ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ،پھر سامنے والی دیوار کوبھی سترہ بنالیا جاتا تھا ۔

                ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ جب ایک چیز صحیح احادیث سے ثابت ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے عمل نے اسے مزید تقویت دی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں تو پھر اس قسم کے موہوم خدشات کے پیش نظر اسے نظر انداز کردیا جائے۔ بحرحال اس قسم کے دلائل وجوب سے استحباب کے لئے قرینہ صارفہ نہیں ہو سکتے۔

٭  امام بخاری  رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی روایت بیان کی ہے کہ آپ نے ان لوگوں پراعتراض کیا جوکہتے ہیں کہ کتے، گدھے اورعورت کا آگے سے گزرنا قاطع الصلوٰۃ ہے۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کاشکوہ تب ہی درست ہوسکتا ہے جب نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو۔ ایک اورروایت میں ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے پاؤں کوہاتھ لگاتے توآپ اپنے پاؤں سکیٹر لیتیں اورجب آپ سجدہ سے فارغ ہوجاتے توپاؤں پھیلادیتیں ۔پاؤں کوسکیٹرنا اورپھیلانا مرورہی تو ہے؟

وضاحت :  دراصل یہ کہناچاہتے ہیں کہ رات کے وقت رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز تہجد پڑھتے توحضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا آپ کے سامنے ہوتیں اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا آپ کے سامنے بیٹھنے کوپسند نہ کرتیں، چنانچہ وہ پائینتی کی طرف سے کھسک کرلحاف سے باہر نکل جاتیں ،اس طرح آپ کے سامنے سے گزر جاتیں اورآپ کے سامنے کوئی سترہ نہیں ہوتا تھا ،لیکن روایات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دو واقعات ہیں۔

                ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا چارپائی پرہوتیں اوررسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نیچے اتر کر چارپائی کوسترہ بناکرنماز پڑھتے۔ اس صورت میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا جنازہ کی طرح آپ کے سامنے لیٹی رہتیں ،جب آپ کوضرورت ہوتی توپائینتی کی طرف کھسک کرباہر نکل جاتیں ۔اس میں آپ کے پاؤں کوہاتھ لگانے اورانہیں سمیٹنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔امام بخاری رحمہ اللہ   نے اس صورت پربایں الفاظ عنوان قائم کیاہے ’’چارپائی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا ‘‘ یعنی رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے چارپائی بطورسترہ ہے۔ اگر حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا اٹھ کرچلی جاتیں توچارپائی آپ کے سامنے رہتی اورسترے کاکام دیتی، امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس روایت کومتعدد مقامات پربیان کیا ہے۔ (۵۰۸،۵۱۱،۵۱۲،۵۱۴،۵۱۹)

                دوسراواقعہ یہ ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اسی بستر پر نماز پڑھتے جہاں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا لیٹی ہوتی تھیں ۔اس صورت میں سترہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہوتی ،چنانچہ سجدہ کے وقت رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  آپ رضی اللہ عنہا  کے پاؤں کودباتے تووہ انہیں سمیٹ لیتیں سجدہ سے فراغت کے بعد حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا انہیں پھیلا دیتیں۔ اس واقعہ میں لحاف سے نکل کرباہرجانے کی صورت میں ہے۔ اس روایت پرامام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیاہے ’’عورت کوسترہ بناکرنوافل پڑھنا‘‘ اسے بھی متعدد مقامات پرذکر کیاہے۔ (۵۱۳،۵۱۹،۱۲۰۹)

     بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کامعمول تھا کہ گھر ،مسجد ،آبادی، صحرا، منیٰ، عرفات، بیت  اللہ ، الغرض جہاں بھی نماز پڑھتے سترہ کااہتمام کرتے۔ آپ کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی اس پرعمل پیرا تھے۔ اس لئے یہ نمازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود سترہ کااہتمام کرے، اہل مسجد کی ذمہ داری نہیں کہ وہ متعدد ’’سترات‘‘ کامسجد میں بندوبست کرکے رکھیں۔ اس قسم کی سہولیات فراہم کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ مؤمن کی شان یہ ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے اس پر عمل پیرا ہونے کی فکر کرے نہ کہ اسے نظر انداز کرنے کے لئے موہوم خدشات یاپائے چوبین کاسہارا لے۔   [و اللہ اعلم بالصواب]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:100

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ