سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60 نمازِ اشراق کی شرعی حیثیت

  • 12014
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 3927

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز اشراق بدعت ہے۔ ماہنامہ ’’طیبات ‘‘میں اس نماز کوبدعت لکھا ہے،بعض حضرات نے اس کے پیش نظر اس نماز کو ترک کردیا ہے جبکہ ہم نے اپنے علمائے کرام سے اس نماز کے متعلق بہت فضیلت سن رکھی ہے۔ وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  ماہنامہ ’’طیبات ‘‘میں ایک خاتون ’’گل دستہ احادیث سے کچھ پھول چنے میں نے ‘‘کے عنوان سے مستقل لکھتی ہیں ، اس میں ایک حدیث بایں الفاظ درج ہے ’’‘مجاہد نے بیان کیا کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے وہاں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کے حجر ہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کچھ لوگ مسجد نبوی میں اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے ،مجاہد کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما  سے لوگوں کی اس نماز کے متعلق پوچھا توآپ نے فرمایا کہ بدعت ہے۔‘‘ [بخاری ، ماہنامہ ’’طیبات‘ ‘ مجریہ اکتوبر ۲۰۰۳،صفحہ ۸]

کالم نگار کوچاہیے تھا کہ اس حدیث کے متعلق وضاحتی نوٹ لکھتی کہ حضرت عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز اشراق کے متعلق بدعت ہونے کاتبصر ہ کس پس منظر میں کیا ہے تاکہ لوگ اس کے متعلق الجھن یا ابہام کاشکار نہ ہوتے۔ ممکن ہے کہ ناقصات عقل ودین کے حوالہ سے یہ سہوہوا ہو ،ویسے بھی اس پرفتن دور میں تحقیق کی آڑ میں بدعات کوفروغ دیاجارہاہے اورمسلمات کاانکار کیاجارہاہے ،اس قسم کی جدید تحقیق سے ہمارے حساس اہل حدیث حضرات میں بہت اضطراب پایاجاتا ہے۔ارباب حل وعقد کوچاہیے کہ اس فتنہ تحقیق کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کریں تاکہ عامۃ الناس مسلک اہل حدیث کے متعلق شکوک وشبہات کاشکار نہ ہوں، اس ضروری وضاحت کے بعد اب ہم درپیش مسئلہ کے متعلق اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں ۔

 اس میں شک نہیں ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول وعمل سے نما زاشراق کی اہمیت وفضیلت ثابت ہے ۔چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کے ہرجوڑ کے بدلے صدقہ خیرات کرے سبحان  اللہ  کہناصدقہ ہے، الحمدﷲ کہنابھی صدقہ ہے، لاالہ الا  اللہ  محمدرسول  اللہ  کہنا بھی صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، نیکی کاحکم دینا بھی صدقہ ہے، برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے اور اگر اشراق کی دورکعت پڑھ لی جائیں تو ان سب کاموں سے کفایت کرجاتی ہیں ۔‘‘  [صحیح مسلم: ۱۶۷۱]

اس حدیث پرامام نووی  رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ عنوان قائم کیاہے: ’’نماز اشراق کے استحباب کابیان کم ازکم دورکعات اورمکمل آٹھ رکعات ہیں، درمیانہ درجہ چار یاچھ رکعات اداکرنا ہے اورشوق سے اس نماز کی پابندی کابیان ۔‘‘

حدیث قدسی میں ہے کہ  اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ اے ابن آدم ! تومیرے لئے چار رکعات (اشراق کی ) اول دن میں پڑھ میں اس دن کی شام تک تیرے تمام کام سنواردوں گا۔ ‘‘    [ابوداؤد، ابواب التطوع:۱۲۸۹]

                رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چند صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کونماز اشراق کے ادا کرنے کی وصیت بھی فرمائی جس پر عمر بھر کاربند رہے ،چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ مجھے میرے پیارے دوست رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ،جب تک میں زندہ رہوں گا انہیں نہیں چھوڑوں گا، ہرمہینے کے تین روزے، اشراق کی نماز اور سونے سے پہلے نمازوتر کی ادائیگی۔ [صحیح بخاری ،التہجد :۱۱۷۸]

                حضرت ابودرداء  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب نے تین باتوں کی وصیت فرمائی میں زندگی بھر ان پرعمل پیرا رہوں گا، ہرماہ کے تین روزے ،نماز اشراق اورسونے سے پہلے وتروں کواداکرنا۔    [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین :۱۶۷۵]

                حضرت ابوذر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے بھی میرے پیارے حبیب نے تین باتوں کی وصیت فرمائی،اگر اللہ  تعالیٰ نے چاہا تومیں انہیں کبھی ترک نہیں کروں گا ،مجھے نمازاشراق کی وصیت کی ،سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی تاکید فرمائی اورہرماہ تین روزے رکھنے کے متعلق فرمایا ۔    [نسائی ،الصیام :۲۴۰۶]

اب رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل مبارک کے متعلق چنداحادیث پیش خدمت ہیں :

                حضرت عبد اللہ بن حارث  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی نمازاشراق کے متعلق معلومات لینے کے لئے کئی ایک لوگوں سے ملا مجھے حضر ت ام ہانی  رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  فتح مکہ کے موقع پردن چڑھنے کے بعد میرے گھر آئے، آپ نے غسل فرمایا اورنماز اشراق کی آٹھ رکعات اداکیں ۔     [صحیح مسلم، حدیث نمبر :۲۶۶۸]

 حضرت ابن ابی لیلیٰ نے بھی حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز اشراق کونقل کیا ہے ۔    [ابوداؤد:۱۲۹۱]

  بعض روایات میں حضرت ام ہانی  رضی اللہ عنہا نے اس نماز اشراق کی تفصیل بھی بیان کی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات اس طرح ادا فرمائیں کہ ہر دورکعت پرسلام پھیرتے تھے ۔    [ابوداؤد:۱۲۹۰]

                حضرت معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز اشراق کے متعلق پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا: ’’ہاں، چار رکعت پڑھتے تھے اورجس قدر  اللہ  تعالیٰ چاہتا آپ اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے۔ ‘‘[صحیح مسلم:۱۶۶۳]

   حضرت عبد اللہ  بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیاکہ آیا آپ نمازاشراق پڑھتے تھے آپ نے فرمایا جب سفر سے واپس آتے تواشراق پڑھ کرگھرآتے تھے ۔   [صحیح مسلم: ۱۶۶۰]

حضرت ام ذرہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کودیکھا کہ آپ نماز اشراق پڑھتی تھیں اورفرمایا کرتی تھیں کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کومیں نے اشراق کی چار رکعات پڑھتے دیکھا ہے۔      [مسند امام احمد، ص:۱۰۶،ج۶]

حضرت ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اس قدر پابندی کے ساتھ نمازاشراق پڑھتے تاآنکہ ہم کہتے کہ اب آپ اسے ترک نہیں کریں گے اورپھر آپ عرصہ تک اسے ادانہ کرتے حتی کہ ہم کہتے اب آپ  اسے نہیں پڑھیں گے ۔   [ترمذی:۴۷۷]

 حضرت جبیر بن مطعم  رضی اللہ عنہ نے بھی رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نماز اشراق پڑھتے ہوئے دیکھا۔     [مجمع الزوائد:۲/۲۳۷]

                حضرت انس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کوسفر میں نماز اشراق آٹھ رکعات پڑھتے دیکھا، پھر آپ سے نماز کے بعد ایک طویل دعا بھی منقول ہے۔     [مستدرک حاکم :۱/۳۱۴]

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ  نے نمازاشراق کے متعلق ایک مفصل جزتصنیف کیا ہے جس میں تقریباً بیس صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی مرویات کوجمع کرکے اس نماز کی مشروعیت کوثابت کیاہے ۔     [فتح الباری :۳/۷۲]

    اس نماز کی فضیلت کے متعلق متعدد روایات ہیں، حضرت ابوامامہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’نماز اشراق پڑھنے والے کوعمرہ کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔‘‘     [مسند امام احمد:۵/۲۶۸]

  اگرچہ بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کونمازاشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ۔لیکن ان کے نہ دیکھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سرے سے اس نماز کاوجود ہی نہیں بلکہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا: ’’میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کونمازاشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر میں اسے اداکرتی ہوں ،رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عادت تھی کہ آپ کسی عمل کو پسند کرتے تھے مگراس پر عمل پیرانہ ہوتے ،اس کی وجہ یہ ہوتی کہ آپ کے عمل کودیکھ کرلوگ بھی اسے اپنائیں گے، پھر ان پرفرض ہو جائے گا اس ڈر سے آپ کوپسندیدہ ہونے کے باوجود آپ اس پرعمل نہ کرتے تھے ۔ [صحیح مسلم: ۱۶۶۲]

اس حدیث کے پیش نظر ممکن ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز اشراق نہ دیکھی ہو،اگرچہ اس کاثبوت سابقہ روایات میں موجود ہے ،تاہم حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا اسے بڑے اہتمام سے اد اکرتی اور فرمایا کرتی تھیں کہ اگر میرے والدین بھی زندہ ہوکر آجائیں تب بھی نماز اشراق نہیں چھوڑوں گی ۔     [مؤطاامام مالک، باب صلوٰۃ الضحیٰ]

                اب ہم حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  کی روایت کاجائزہ لیتے ہیں، جس میں انہوں نے فرمایا کہ نمازاشراق بدعت ہے، چنانچہ وہ روایت ماہنامہ ’’طیبات‘‘ کے حوالہ سے بیان ہوچکی ہے اسے امام بخاری رحمہ اللہ  نے [کتاب العمرہ: ۱۷۷۵] میں بیان کیا ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مورق نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ کیا آپ نماز اشراق پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پڑھا؟ فرمایا نہیں، عرض کیا حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے اسے ادا کیا؟ فرمایا نہیں، میں نے کہا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کاپڑھنا ثابت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں ان سے پڑھنا بھی ثابت نہیں ہے ۔     [صحیح بخاری : ۱۱۷۵]

                امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس روایت پریہ عنوان قائم کیا ہے کہ ’’سفر میں نماز اشراق اداکرنا۔‘‘

                عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے بعد آپ حضرت ام ہانی  رضی اللہ عنہا کی روایت لاتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  فتح مکہ کے موقع پران کے گھرتشریف لائے، غسل فرمایا، پھرآٹھ رکعات اداکیں ،یہ نماز بہت ہلکی تھی ،البتہ رکوع اور سجود کوپورا ادا کرتے تھے ۔[صحیح بخاری :۱۱۷۶]

                حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  نے ان روایت کی تشریح کرتے ہوئے ابن المنیر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ دوران سفر رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اس نماز کااہتمام نہ کرتے تھے ہاں، اگر دوران سفر ،حضر جیسی سہولت میسر ہوتونمازاشراق کااہتمام کیاجاسکتا ہے۔ جیساکہ حضرت ام ہانی  رضی اللہ عنہا  کے گھر میں سہولیات میسر تھیں توآپ نے نماز اشراق ادا کی ۔جبکہ ابھی سفر ختم نہیں ہواتھا۔     [فتح الباری :۳/۶۸]

                پھرحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نماز اشراق کے متعلق اپنے اندر نرم گوشہ رکھتے تھے، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ اگرچہ اسے لوگوں نے اپنے طورپر پڑھناشروع کردیا ہے لیکن مجھے ان کی ادابہت پسند ہے ۔    [فتح الباری : ۳/۶۹]

                بہرحال آپ کاانکار اس بنا پرہے کہ آپ نے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو نماز اشراق پڑھتے نہیں دیکھا ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کانہ دیکھنا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ سرے سے اس نما ز کاوجود ہی نہیں ہے یااس کاادا کرنابدعت ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ  وغیرہ نے لکھا ہے کہ نماز اشراق کی فرض نماز جیسی پابندی کرنا،مسجد میں اس کا اداکرنا اورباجماعت اہتمام کرنے کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انکار کیاہے۔ آپ کے انکار کایہ معنی نہیں ہے کہ نماز اشراق خلاف سنت ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود  رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو اس کااہتمام کرتے دیکھا تو فرمایا: اگرتم نے اس کااہتمام کرنا ہے تواپنے گھروں میں اداکرو۔    [فتح الباری ]

                بلکہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  نے صحیح ابن خزیمہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  جب سفر سے واپس آتے تو نمازاشراق پڑھتے ۔     [فتح الباری:۳/۶۹]

                حافظ ابن قیم  رحمہ اللہ نے نماز اشراق کے متعلق اختلاف بیان کرتے ہوئے مختلف مسالک کی نشاندہی کی ہے ۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے :

1۔  نمازاشراق مستحب ہے، البتہ اس کی تعداد میں اختلاف ہے ۔

2۔  کسی سبب کی وجہ سے اس کااہتمام کیاجائے، مثلاً: کسی شہر کے فتح ہونے یا کسی مخالف کی موت پریاکسی کے ہاں زیارت کے لئے جانے پر یاسفر سے واپس آنے پر۔

3۔   سرے سے مشروع نہیں ہے جیسا کہ حضرت عبدالرحمن اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما  کے متعلق مروی ہے کہ یہ حضرات، اسے نہیں  پڑھا کرتے تھے۔

4۔  اس پر مداومت نہ کی جائے بلکہ کبھی پڑھ لی جائے اورکبھی اسے چھوڑدیاجائے ۔

5۔  اس کے پڑھنے کااہتمام گھروں میں کیاجائے ،مساجد وغیرہ میں اس کااظہاردرست نہیں ہے ۔

6۔  یہ مستحب نہیں ہے بلکہ بدعت ہے ۔     [زادالمعاد :۱/۳۵۱]

                ہمارے نزدیک پہلاموقف صحیح ہے اوراس کی کم ازکم دورکعات اورزیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:97

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ