السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں سرکامسح کرنے کے بعد الٹے ہاتھوں گردن کامسح بھی کیا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت واضح کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سرکامسح بایں طورپر کیاجائے کہ دونوں ہاتھ سر کے اگلے سرے سے شروع کرکے گدی تک پیچھے لے جائیں، پھر پیچھے سے آگے تک لے آئیں کہ جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔ [صحیح بخاری ،الوضو:۱۸۵]
پھر کانوں کامسح اس طرح کیاجائے کہ شہاد ت کی انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں میں ڈال کرکانوں کی پشت پرانگوٹھوں کے ساتھ مسح کیاجائے۔ [ابن ماجہ، الطہارۃ: ۴۳۹]
گردن کے مسح کرنے کے متعلق جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتی۔جس کی تفصیل یہ ہے :
٭ جس نے وضو کیا اور گردن کامسح کیا،قیامت کے دن لوہے کے طوق سے محفوظ رہے گا۔ [تاریخ اصفہان ]
٭ گردن کامسح کرناقیامت کے دن طوق سے محفوظ رہنا ہے۔ [مسند الفردوس ]
یہ دونوں روایات موضوع اورخودساختہ ہیں کیونکہ ان میں محمد بن عمر وانصاری ایک راوی ،واہی تباہی مچانے والااورانتہائی ناقابل اعتبار ہے ۔ [سلسلہ الاحادیث الضعیفہ ص ۱۶۷،ج ۲نمبر۷۴۴ ]
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گردن کامسح کرناثابت نہیں ہے۔ آپ نے وضو کرنے کاطریقہ امت کوتلقین کیاہے اس میں گردن کے مسح کاسرے سے وجود نہیں ہے۔ جمہور علما، مثلاً: امام مالک، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اس کے قائل نہیں ہیں ۔اس کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی جوروایت پیش کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں۔ اس لئے گردن کے مسح کے بغیروضو کرناچاہیے۔ [فتاویٰ ابن تیمیہ ،ص: ۱۲۷،ج ۲۱]
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دوران وضو گردن کامسح کرنااحادیث سے ثابت نہیں ۔ [زادالمعاد،ص: ۶۸،ج ۱]
امام نووی رحمہ اللہ نے اسے بدعت قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ ترکمانی نے اسے نقل کیاہے۔ [نیل الاوطار،ص: ۲۰۲،ج۱]
اس لئے وضوکرتے وقت گردن کے مسح سے اجتناب کرناچاہیے۔ [و اللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب