السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے باربار پیشاب آنا اورریح خارج ہونے کا مرض لاحق ہے، اس کے علاوہ پیشاب کے بعد قطر ے آنے کی بھی شکایت ہے، دوران نماز بھی بعض اوقات یہ عمل جاری رہتا ہے، اس لئے میں شلوار یاچادر کے نیچے جانگیہ پہنتا ہوں، ایسے حالات میں مجھے نماز کے لئے کیاکرناچاہیے؟ کتا ب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس شخص کوباربار پیشاب آنے یاریح خارج ہونے کامستقل عارضہ لاحق ہو ،اس کے متعلق محدثین کایہ موقف ہے کہ وہ ہرنماز کے لئے تازہ وضو کرے اوراس وضو سے ایک فریضہ، خواہ ادا ہو یاقضا نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس نماز کی سنتیں وغیرہ بھی اسی وضو سے ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس موقف کی بنیا د حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ شکایت کی مجھے کثرت سے خون آتا ہے اورکسی وقت اس کی بندش نہیں ہوتی ایسے حالات میں کیا مجھے نماز چھوڑدینے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’یہ خون حیض کا نہیں ہے جس کی وجہ سے نماز ترک کردی جائے بلکہ یہ ایک بیماری کی وجہ سے رگ خون بہہ پڑتی ہے مخصوص ایام میں تونماز ترک کی جاسکتی ہے۔‘‘ اگرخون بدستور جاری رہے تو غسل کرکے نماز ادا کرناہوگی جس کاطریقہ یہ ہے کہ ہرنماز کے لئے تازہ وضو کرنا ہو گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’پھر تجھے ہرنماز کے لئے وضو کرناہوگا۔‘‘ [صحیح بخاری ،الوضو :۲۲۸]
استحاضہ کے خون کاحکم بے وضو ہونے کی طرح ہے کہ مستحاضہ ہرنماز کے لئے وضو کرے گی لیکن وہ اس وضو سے صرف ایک فریضہ اداکرسکتی ہے۔ [فتح الباری، ص: ۴۰۹ج۱]
اس پرقیاس کرتے ہوئے جس مریض کوباربار پیشاب آنے یاریح خارج ہونے کی شکایت ہے اسے چاہیے کہ وہ ہرنماز کے لئے تازہ وضو کرے ،اگر دوران نماز قطر ہ آنے کا اندیشہ ہوتوجانگیہ نہ اتارے ۔اگر نماز میں قطرہ آنے کا خطرہ نہ ہو توجانگیہ اتارکرنماز اداکی جائے ۔بہرحال اس کے لئے علاج جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب