السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کئے پانی سے استنجانہیں کیا،اس کے بعد وضو کرکے جماعت کرا دی، کیاشرعاً ایساکرنادرست ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ امامت کا معاملہ بہت نازک ہو تا ہے، امام کوچاہیے کہ وہ اپنے مقتدیوں کے سامنے قطعاًکوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوسکتا ہو،چونکہ امام مقتدیوں کے لئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے امام کے لئے بہترین اخلاق اورمثالی کردار کاحامل ہوناضروری ہے۔ بلاشبہ قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کرنے سے طہارت مکمل ہوجاتی ہے اگرایسا کرنے کے بعد باوضو ہوکر نماز پڑھاتا ہے تواس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ’’جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے جائے توطہار ت کے لئے تین پتھر ساتھ لے جائے، فراغت کے بعد انہیں استعمال کرناطہارت کے لئے کافی ہے۔‘‘ [ابو داؤد، کتاب الطہارۃ: ۴۰]
تا ہم بہتر ہے کہ پانی سے استنجا کیاجائے کیونکہ پانی سے طہارت اورصفائی اچھی طرح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’عورتوں کوچاہیے کہ وہ اپنے خاوندوں کوپانی سے استنجا کرنے کی تلقین کریں کیونکہ ایسے معاملات میں مجھے گفتگو کرنے سے شرم آتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے، یعنی وہ پانی سے استنجا کرتے تھے ۔‘‘ [نسائی، کتاب الطہارۃ: ۴۶]
اگرڈھیلے اورپانی دونوں میسرہوں اورڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی سے استنجا کیاجائے توبہت بڑی فضیلت ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل قبا کی طہارت کے متعلق فضیلت بیان فرمائی ہے ۔جب اس کی وجہ دریافت کی گئی توانہوں نے بتایا کہ ہم ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال امام کوچاہیے کہ وہ ایسی باتوں کاخیال رکھیں اورمقتدیوں کوبھی چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کوفساد وفتنہ کاذریعہ نہ بنائیں ،اگرمسئلہ کاعلم نہ ہوتوکسی اہل علم کی طرف رجوع کریں ۔ [و اللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب