سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(37) وضوء سے پہلے بسم اللہ پڑھنا

  • 11991
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 3830

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہم وضو سے پہلے بسم  اللہ  الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے ،اب پتہ چلا ہے کہ صرف بسم  اللہ  پڑھنا چاہیے، قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چھلے دنوں ہمارے ایک مہربان نے ’’جدید محققین کرام کی خدمت میں‘‘کے عنوان سے ایک معاصر رسالے میں لکھاتھا کہ کھانے اوروضو سے قبل صرف بسم  اللہ  کہے یا بسم  اللہ  الرحمن الرحیم پوری پڑھے ؟بعض کافتویٰ بسم  اللہ  پڑھنے کاہے ،بعض بسم  اللہ  الرحمن الرحیم پڑھنے کامشورہ دیتے ہیں اوراس کومستحب بتاتے ہیں ۔مذکورہ صورتحال کے پیش نظر تو کھانے اوروضو سے قبل بسم  اللہ  پڑھنے کوسرے سے ہی چھوڑ دینا زیادہ باعث عافیت معلوم ہوتا ہے (تنظیم اہل حدیث مجریہ ۲۵مارچ ۲۰۰۴ء)

                معزز قارئین! اس سلسلہ میں ہمیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم اہل حدیث ہیں اوراختلاف کے وقت  اللہ  اوراس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں، چنانچہ اس کے متعلق حدیث ہے کہ ’’اس شخص کاوضو نہیں جو اللہ  کانام ذکر نہیں کرتا۔‘‘     [ابوداؤد، الطہارۃ: ۱۰۱]

                یہ حدیث متعدد صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مروی ہے جن کی تعداد نو(۹)تک پہنچتی ہے ۔ہر حدیث کی سند کے متعلق محدثین نے کلام کیاہے، تاہم ان کے مجموعہ سے قوت پیداہوجاتی ہے جواس بات کی دلیل ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل لامحالہ موجود ہے ۔ [تلخیص الحبیر،ص: ۲۵۷،ج۱]

                علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں سب سے زیادہ قوی حدیث وہ ہے، جسے حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے بیان کیا ہے۔    [تمام المنہ، ص:۸۹]

                اب اس با ت کی وضاحت کرناہے کہ وضو کرتے وقت جو اللہ کانام ذکرکرنا اس سے مراد بسم  اللہ  ہے ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا ہے۔امام ابن السنی نے اپنی تالیف ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ میں ایک عنوان بایں الفاظ میں قائم کیاہے کہ وضو کرتے وقت  اللہ  کانام کیسے لیاجائے، یعنی تسمیہ سے کیامراد ہے؟چنانچہ انہوں نے حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تَوَضَّؤُوْا  بِاسْمِ اللّٰہِ‘‘ یعنی بسم اللہ پڑھ کر وضو کرو۔    [عمل الیوم واللیلۃ: حدیث نمبر ۲۷]

                اس کے علاوہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عملی طورپر صرف ’’بسم  اللہ  ‘‘کہنا ہی ثابت ہے، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں رکھا، پھرفرمایا ’’بسم  اللہ  اچھی طرح وضو کرو۔‘‘     [مسند امام احمد ،ص۲۹۲ ،ج۳ ]

                اس سے معلوم ہواکہ وضو کے شروع میں بسم  اللہ  کے ساتھ الرحمن الرحیم کے الفاظ ثابت نہیں ہیں، جیسا کہ ذبح کرتے وقت صرف بسم  اللہ  کہنا مشروع ہے اورہم اس کے ساتھ الرحمن الرحیم کااضافہ نہیں کرتے اسی طرح وضو کے شروع میں ان الفاظ کونہ پڑھنا ہی قرین قیاس ہے۔ چنانچہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ تسمیہ سے مراد ’’بسم  اللہ ‘‘ کہناہے اس کے علاوہ کوئی دوسرے الفاظ اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے، جیسا کہ ذبح کرتے ،کھاناکھاتے اورپانی پیتے وقت یہی تسمیہ مشروع ہے اور اس کا محل نیت کے بعد وضو کے تمام اعمال سے پہلے ہے۔    [مغنی، ص: ۴۶،ج۱]

                اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’اے ابوہریرہ! جب وضو کرو تو پہلے بسم اللّٰہ والحمدللّٰہ پڑھ لیاکرو ۔‘‘     [مجمع الزوائد،ص: ۲۲۰،ج۱]

   رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے بھی فرمایا کہ’’ جب وضوکرو توبسم  اللہ  پڑھو ۔‘‘    [المطالب العلیہ، ص: ۲۵، ج۱]

    لیکن اس آخری حدیث کی سند میں حارث نامی راوی ضعیف ہے، تاہم اسے بطور استدلال نہیں بلکہ تائید کے لئے پیش کیا ہے۔ ان احادیث کے پیش نظر وضوکے شروع میں صرف ’’بسم  اللہ ‘‘ پڑھنا مشروع ہے ۔اختلاف سے دل برداشتہ ہوکر بسم  اللہ  کو ترک کردینا زیادہ باعث عافیت نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے ’’مہربان ‘‘نے موقف اختیار کیاہے۔ ہاں، اگربھول کی وجہ سے وضو کے آغاز میں ’’بسم  اللہ ‘‘ نہیں پڑھی گئی تودوران وضو جب بھی یاد آئے تواسے پڑھا جاسکتا ہے اگروضو مکمل ہونے کے بعد یاد آئے تواس کے بغیر بھی صحیح ہے ۔اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔امام ابوداؤد نے امام احمد سے دریافت کیا کہ جب کوئی وضو میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے توکیاحکم ہے آپ نے جواب دیا کہ ’’مجھے امید ہے کہ اس پرکچھ نہیں ہے۔‘‘     [مغنی لابن قدامہ، ص: ۱۴۶، ج ۱]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:82

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ