السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کمائی کرنے کی وجہ سے رمضان کے روزے ترک کر دیے، تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ شخص جس نے ماہ رمضان کے روزے اس لیے نہ رکھے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کمائی کر رہا تھا، اگر اس نے یہ کام تاویل سے کام لے کر یہ گمان کرتے ہوئے کیا کہ جیسے مریض کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھے، اسی طرح اس شخص کے لیے بھی جائز ہے، جو روزہ ترک کیے بغیر کام نہ کر سکتا ہو کہ وہ روزے کو چھوڑ دے تو یہ شخص اگر زندہ ہے تو اسے رمضان کے ان روزوں کی قضا ادا کرنا ہوگی اور اگر فوت ہوگیا ہے، تو اس کی طرف سے روزے رکھے جائیں گے۔ اگر اس کا وارث اس کی طرف سے روزے نہ رکھے تو وہ اس کی طرف سے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ اگر اس نے تاویل کے بغیر روزے ترک کیے، تو پھر اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ ہر وہ عبادت جس کا وقت مقرر ہے، جب انسان اسے بلا عذر وقت مقرر پر ادا نہ کرے، تو وہ قبول نہیں ہوتی، لہٰذا اسے کثرت کے ساتھ اعمال صالحہ، نوافل اور استغفار کرنا چاہیے۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے، جو صحیح حدیث میں ہے:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» (صحيح مسلم، الاقضية باب نقض الاحکام الباطلة ح:۱۷۱۸، ۱۸)
’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
جس طرح وقت مقررہ کی عبادت کو قبل از وقت سر انجام نہیں دیا جا سکتا، اسی طرح اسے بعد از وقت بھی سر انجام نہیں دیا جا سکتا اِلاَّیہ کہ جہالت اور نسیان جیسا کوئی عذر ہو۔ نسیان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«مَنْ نَام عنَ صَلَاةً اَو نسيهاْْفليُصَلِّيَهَا إِذَا ذَکَرَهَا۔ وفی رواية: لَا کَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِکَ» (صحيح البخاري، المواقيت باب من نسی صلاة فليصل اذا ذکر، ح: ۵۹۷ وصحيح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة، ح: ۶۸۴ (۳۱۵)
’’جو شخص کوئی نماز سے سویا رہے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے اسی وقت پڑھ لے جب اسے یاد آئے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے: ’’اس کا کفارہ بس یہی ہے۔‘‘
البتہ جہالت کا مسئلہ بھی تفصیل طلب ہے لیکن یہ تفصیل کا موقع نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب