السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص لوگوں کو دفع امراض و تکالیف کےلیے لکھ کر لٹکانے کےلیے یہ شعر سکھاتا ہے: لى خمسة أطفى بها حر الوبى ، الحاطمة والمصطفى والمجتبى والفاطمة و أبنائها . (سائل محمدیونس و محمد گل )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہاں دو بحثیں ہیں :
پہلی بحث: اس شعر کے ایطال میں ۔
دوسری بحث : تعاویذ کے لٹکانے میں :
پہلی بحث :
اللہ کی توفیق سے ہم کہتے ہیں : یہ بیت کئی وجوہ سے باطل ہیں :
پہلی وجہ : اس کا قائل معلوم نہیں اور ایسا بیت باطل ہے ۔
دوسری وجہ : اس بیت کا کوئی معنی نہیں کیونکہ اس میں لفظ حاطمہ کا کوئی معنی نہیں ۔
تیسری وجہ : یہ شعر کافر شیعوں نے گھڑا ہے وہ عام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بغض رکھتے ہین اور مذکورہ پانچ کی محبت کے دعویدار ہیں لیکن وہ ان کے بھی دشمن ہیں ۔
چوتھی وجہ : اگر ’’حر الوبی‘‘ سے مراد دفع امراض ہے جیسے کہ سوال میں مذکور ہے تو یہ شر کی وسیلہ ہے اور یہ شخص ضال یا مضل بلکہ شرک ہے کیونکہ وہ لوگوں کو دفع امراض و تکالیف کےلیے نبی ﷺ سے جو صحیح ثابت ہے نہیں سکھاتا، اور ایک بدعی چیز گھڑ کر مسلمانوں کے عقائد خراب کر رہا ہے ، شر کی اوربدعی کلمات میں کوئی خبر نہیں ، خیر رسول اللہ ﷺ سے جو صحیح ثابت ہیں اس میں ہے ،
اور اگر ’’حر الوبی‘‘ سے مراد اپنی حرارت کلی کو ان کی محبت سے دفع کرنا ہے تو یہ دور کی تاویل ہے ، جو اس شخص کے عمل کے مخالف ہے اور پھر یہ عام صحابہ کو چھوڑ کر صرف ان پانچ کی تخصیص کیوں کرتا ہے ؟۔
ان و جوہات کی بناء پر یہ شعر بھی باطل ہے اور اس کا بیمار کے گلے میں لٹکانا بھی باطل ہے۔
مولانا رشید احمد احسن الفتاویٰ (1/ 48) میں کہتے ہیں : ’’یہ بیت اور اس کا گلے میں لٹکانا باطل اور شرک ہے ‘‘۔
دوسری بحث : تعویذ دو قسم کے ہیں :
پہلی قسم : اگر تعویذ میں ایسا دم لکھا گیا ہے جس کا کوئی معنی نہیں یا لکیریں ہیں جس سےمراد سمجھ میں نہیں آتی یا اس میں شرک کے کلمات ہوں یا ان میں غیر اللہ سے فریاد رسی کی گئی ہو جیسے سلیمان ،فرعون ،شداد ، بدوح ، جبرائیل ، میکائیل ، حسن ، حسین ، فاطمہ ، حیدر وغیرہ تو اس قسم کے تعاویز کی حرمت پر اتفاق ہے اوراس کی رخصت علماء تو درکنار مسلمانوں میں سے کسی نے نہیں دی ۔
اس کی دلیل صحیح مسلم (2/ 774) میں عوف بن مالک اشجعی کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں :
’’کہ ہم جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاکُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ يَکُنْ فِيهِ شِرْکٌ»
تم کلمات دم میرے سامنے پیش کرو اور ایسے دم میں کوئی حرج نہیں جس میں شرک نہ ہو۔
مسند احمد (4/ 154) میں ام سیلمہ ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«من ألقى و دعة فى عنق الصبي فالله عنه برىء»
’’جس نے بچے کے گلے میں منکا لٹکا یا تو اللہ تعالیٰ اس سے بیزار ہے ۔‘‘
اس طرح عرف شذی: (2/ 28) میں ہے
ليكن باوجود تلاش بسیار بروایت ام سلمہ ؓ مجھے مسند احمد میں یہ حدیث نہیں ملی ، اس کی سند حسن ہے جیسے کہ امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا ہے اور دعۃ لغت میں منکے کو کہتے ہیں ۔
عبد اللہ بن مسعود سے ورایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
«ان الرقى والتمائم والتولة شرك»
’’یقیناً رقی ، تمائم ، تولہ شرک ہے ‘‘ ابو داؤد رقم: (3883) ، ابن ماجہ رقم: (353) ، ابن حبان رقم : (1413) ، احمد : (1/ 381) ،حاکم : (4/ 217) ۔
اور اسی طرح سلسلہ : (1/ 585) ، رقم : (331) شیخ فرماتے ہیں ’’رقی ‘‘ سے یہاں مراد جنات سے پناہ طلب کرنا ہے یا اس کا معنی سمجھ میں نہ آتا ہو جیسے بعض مشائخ اپنے زعم میں اپنی کتابوں کو دیمک سے حفاظت کے لیے لفظ ’’یا کیبج‘‘ لکھتے ہیں ۔
’’تمائم ‘‘ جمع ہے تمیمة كى جواصل میں منکول کو کہتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ مکان کے سامنے یا دروازے پر گھوڑے کانعل لٹکانا اس طر ح ڈرائیوروں کا اپنی گاڑیوں کے آگے یا پیچھےنعل کا لٹکانا یا ڈرائیور کے سامنے والے شیشے پر نیلا منکا لٹکانا جن سے ان کے خیال میں نظر بد سے حفاظت ہوتی ہے اسی حکم میں ہے ۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کسی شخص کے ہاتھ میں پیتل کا کڑا دیکھا تو فرمایا : کیوں ڈال رکھا ہے؟
اس نے کہا ، کلائی کی تکلیف کی وجہ سے ۔ آپ نے فرمایا:
«انزعها فانها لا تزيدك الا وهنا»
’’اسے اتار دے اس سے تیری تکلیف مزید بڑھتی ہے ۔‘‘
زوائد میں اس حدیث کو حسن کہا ہے ، ابن ماجہ رقم : (3531) ، احمد : (4/ 445) ۔
عقبہ بن عامر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
«من تعلق تميمة فلا أتم الله له ومن تعلق و دعة فلا ودع الله له »
’’جو منكالٹکائے اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے ، اور جو منکا لٹکائے اللہ اسے آرام نہ دے‘‘۔ (احمد : 4/ 154)
حذیفہ سے روایت ہے انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں بخار کا دھاگہ بندھا دیکھا تواسے کاٹ ڈالا اور یہ آیت پڑھی :
﴿وَما يُؤمِنُ أَكثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلّا وَهُم مُشرِكونَ ١٠٦﴾... سورة يوسف
’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘
ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں مجھے حدیث سنائی محمد بن ابراہیم ابن اشکاف نے وہ کہتے ہیں مجھے حدیث سنائی یونس بن محمد نے وہ کہتے ہمیں حدیث سنائی حماد بن مسلمہ نے وہ روایت کرتے ہیں عاصم احول سے و ہ عروہ سے وہ کہتے ہیں کہ حذیفہ ایک بیمار پر داخل ہوئے تو اس کے بازو پر چمڑے کا تسمہ بندھا ہوا دیکھا تو اسے کاٹ دیا اور اسے اس کا حکم یاد دلایا ‘‘ فتح ا لمجید ص (92)۔
سعید بن جبیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ’’جس نے کس انسان سے تمیمہ کاٹ کر ہٹا دیا تو اسے غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا ‘‘ ، اسے وکیع نے روایت کیا ہے ۔ ( ابن ابی شیبہ ۔ کتاب الطب ۔ باب فی تعلیق التمائم : رقم (3524) ۔
اسی لئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں : مجہول اسم سے دعا کرنا تو دور کی بات ہے اس کے ساتھ دم کرنا بھی کسی کے لیے جائز نہیں اگرچہ اس کا معنی سمجھتا ہو کیونکہ غیر عربی لفظ کے ساتھ دعا کرنی مکروہ ہے ۔ رخصت تو صرف اس کے لیے ہے جسےعربی نہ آتی ہو ۔ عجمی الفاظ کو شعاربنانا دین اسلام میں نہیں ۔‘‘
امام سیوطی فرماتے ہیں: ’’تین شرطوں کے ساتھ دم کے جواز پر علماء کا اجماع ہے ۔
(1): وہ اللہ کا کلام ہو یا اس کا نام یا صفت ہو ۔
(2): عربی زبان میں ہو اور معنی معلوم ہو ۔
(3): ساتھ یہ عقیدہ ہو کہ دم بذات خود اثر نہیں کرتا بلکہ اللہ کی تقدیر سے اثر کرتا ہے۔
2۔ تعاویذ کی دوسری قسم :
ایسا تعویذ جس میں قرآن کی آیت لکھی ہو یا ایسی دعا لکھی ہو جو صحیح سند سے منقول ہو لٹکانے کے جواز و عدم جواز میں علماء کے دوقول ہیں :۔
پہلا قول : یہ صرف جائز ہے او راستحباب کے درجے میں نہیں وہ درج ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں :
1۔ دلیل : عبد اللہ بن عمرو بن عاص سےروایت ہے وہ کہتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ یہ کلمے سکھاتے تھے جو نیند میں گھبراہٹ کے وقت پڑھتے تھے :
«بسم الله أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه و عقابه و شر عباده و من همزات الشياطين وأن يحضرون ، فانها لن تضره»
’’شروع اللہ کے نام سے میں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ اس کے غضب ، عقاب اس کے بندوں کے شر، اور شیاطین کےحاضر ہونے اور وسوسےڈالنے سے پنا پکڑتا ہوں ۔ تو اسے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا ۔‘‘
تو عبد اللہ بن عمرو بن عاص اپنی بالغ اولاد کو اس دعا کی تلقین کیا کرتے تھے اور جو بالغ نہ تھے تو تختی میں لکھ کر ان گلے میں لٹکا دیتے تھے ، ترمذی رقم : (277) سند حسن ہے لیکن اس کا قول ، ’’فكان عبد الله بن عمرو يلقنها‘‘ ضعیف ہے ۔
محمد بن اسحٰق اس زیادت کے ساتھ متفرد ہیں اور وہ مدلس ہیں اور تمام سندوں میں وہ ’’عن‘‘ سے روایت کرتے ہیں ، الصحیحہ : رقم (264) ، صحیح الطیب رقم: (48) ۔ اسی طرح دیکھیں سنن ابی داؤد رقم : (3893) ، حاکم : (1/548) ، احمد : (2/181) ، ابن السنی : (736۔745،) ، مشکوۃرقم (2477) : (1/ 217) ، یہ دلیل ضعیف ہے اور موقوف بھی جو حجت نہیں۔
2۔دلیل : دارمی (1/211) میں عطاء سے مروی ہے کہ ’’حائضہ عورت کے گلے میں تعویذ یا تحریر تھی تو انہوں نے کہا اگر یہ چمڑے میں ہے تو اتار دے اور اگر چاندی کی ڈبیہ میں ہے تو کوئی حرج نہیں اگر چاہے تو اتار دے اور اگر چاہے تو نہ اتار ، عبد اللہ کو کہا گیا آپ یہی کہتے ہیں ؟ فرمایا : ہاں۔‘‘ یہ مقطوع ہے جو حجت نہیں ۔
3۔ دلیل : ابن عباس سے مرفوعاً روایت ہے ’’اگر کسی عورت پر ولادت کی تنگی ہو تو پاک صاف برتن لے کر اس میں یہ آیتیں لکھے ۔ :
1۔﴿كَأَنَّهُم يَومَ يَرَونَ ما يوعَدونَ ...٣٥﴾... سورة الاحقاف
2۔: ﴿كَأَنَّهُم يَومَ يَرَونَها لَم يَلبَثوا...٤٦﴾... سورة النازعات
3۔: ﴿لَقَد كانَ فى قَصَصِهِم عِبرَةٌ لِأُولِى الأَلبـٰبِ...١١١﴾... سورة يوسف
پھر اسے دھو کر عورت کو پلا دیا جائے اور اس کے پیٹ اور چہرے پر چھینٹے مارے جائیں )۔
ابن السنی رقم : (619) ، کنز العمال : (1/ 64) رقم : (28381) ۔ اور اس کی سند بہت ضعیف ہے ، اس کی سند میں ابن ابی لیلیٰ ہے جس کا حافظہ خراب تھا ، اور عبد اللہ بن محمد بن المغیرہ ہے جو منکر الحدیث ہے ۔
امام ابن قیم نے بھی زاد المعاد ، 4/ 170 میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ سلف کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ نظر بد کے شکار شخص کے لیے قرآن کی آیتین لکھ کر پلادی جائیں ، مجاہد کہتے ہیں قرآن کے لکھنے اور دھو کر مریض کو پلانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح ابو قلابہ سے بھی منقول ہے ۔
عائشہ ؓ فرماتی ہیں :
«ا بأس بتعليق التعويذ من القرآن قبل نزول البلاء و بعد نزول البلاء »
’’قرآن کا تعویذ میں اور بیماری سے پہلے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘
ابونعیم نے اپنی کسی کتاب میں روایت کیا ہے لیکن ہمیں ان کی ’’الحلیۃ‘‘ میں نہیں ملی ، نہ ہی اس کی سند ملی ، البتہ کنزالعمال میں برقم : 28413، میں موجود ہے ۔ اور شیخ البانی نے ’’ضعیفہ ‘‘ میں اسے ضعیف کہا ہے ۔ رقم (4770) ۔
امام ابن ابی شیبہ اپنی کتاب مصنف (7/ و 8/ 27) : ’’باب کسی کو پلانے کے لیے قرآن کے لکھنے رخصت ‘‘ میں کہتے ہیں انہوں ابن عباس کی روایت موقوفاً ذکر کی ہے جو ہم پہلے مرفوعاً ذکر کر چکے ہیں جس میں ابن ابی لیلیٰ راوی ہے اور حدیث موقوف کے لفظ ہماری ذکر کردہ روایت کے مغائر ہیں ۔
پھر انہوں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ذکر کی ہے کہ و ہ پانی دم کر کے مریض پر ڈالنے میں حرج نہیں سمجھتی تھیں ۔
پھر ابو قلابہ اور مجاہد سے ذکر کیا ہے کہ وہ دونوں قرآن کی آیت لکھ کر گھبراہٹ والے بیمار کو پلانے میں حرج نہیں سمجھتے تھے اور سعید بن جبیر تعویذ لکھا کرتے تھے ۔
اور عطاء کہتے ہیں ’’ ہم نے تعویذ کی کراہت اے عراقیو! سوائے تمہاری طرف کے کہیں سے نہیں سنی ‘‘۔
سنن کبری (9/ 350۔351) میں : ’’یحیی بن سعید القطان سے دم اور لکھا ہوا لٹکانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ، سعید بن المسیب قرآنی تعویذ کے لٹکانے کا حکم دیتے تھے اور وہ کہتے کہ اس میں حرج نہیں ۔
امام بیہقی کہتے ’’ یہ تو ہماری بات کی طرف لوٹتا ہے کہ نہ سمجھ میں آنے والے کلمات او ر اہل جاہلیت کے دم جائز نہیں اور کتاب اللہ کے ساتھ دم جائز ہیں ‘‘ ۔ اسی طرح رد المختار : (5/ 232) میں بھی ہے ۔
دوسرا قول : تعویذ لٹکانا جائز نہیں ، قرآنی آیت یا حدیث سے ثابت کسی دعا کا لٹکانا جائز نہیں ۔
دلائل یہ ہے :
پہلی دلیل: نبی ﷺ سے یہ ثابت نہیں ۔
دوسری دلیل : کیونکہ اس کے جواز سے معوذات وغیرہ کے ساتھ دم کرنے کی سنت معطل ہو جائے گی ۔
تیسری دلیل: ابو عبید فضائل قرآن (1/ 11) میں اور ابن ابی شیبہ (8/ 29) میں ابراہیم نخعی سے بسند صحیح روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ (صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ) قرآن اور غیر قرآن کے تمائم مکروہ سمجھتے تھے ۔
مغیرہ کہتے ہیں میں نے ابراہیم سے پوچھا اور کہا کہ مجھےبخار ہے آپ یہ آیت ’’ قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ‘‘ میرے بازو پر باندھ دیں تو انہوں نے اسے مکروہ سمجھا ) ۔
پھر ابو عبیدہ نے حسن بصری سے روایت کیا کہ وہ قرآن کو دھو کر مریض کو پلانے کو مکروہ سمجھتے تھے ۔
مراجعہ کے لیے دیکھیں تعلیق الکلم الطیب رقم : 48، السلسلة الصحيحة ، (1/ 585رقم: 331)
عبد اللہ بن مسعود سے بھی اس کی کراہت بسند صحیح مروی ہے ، ابن عباس ؓ ، حذیفہؓ ، عقبہ بن عامر ؓ ، عبد اللہ بن عکیم ، اصحاب ابن مسعود اور ایک روایت میں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے ۔
اور کراہت میرے نزدیک متعدد وجوہ سے راجح ہے ۔
1۔ : نہی عام ہے او رتخصیص کی کوئی دلیل نہیں ۔
2۔ سد ذریعہ کیونکہ جو ایسا نہ ہو اس کا لٹکانا مناسب نہیں ۔
3۔ لٹکانے کی صورت میں یہ احتمال ہے کہ لٹکانے والا بحالت قضائے حاجت و استنجاء وغیرہ ساتھ رکھ کر اس کی ابانت کا مرتکب ہو ۔ میری کوشش تو یہیں تک ہے تو جو یہ تمام قسم کے دم و تعویذ کا قائل ہو تو وہ نص و اجماع کا مخالف ہے اور جوسب کو شرک قرار دیتا ہے اگر یہ قرآن ہی کیوں نہ ہو تو وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے ۔
میں کہتا ہوں : دوسرے قول پر ترمذی (2/ 27)میں عبد اللہ بن عکیم کی حدیث بھی دلات کرتی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :[من تعلق شيئا و كل اليه ]
’’جو کوئی چیز لٹکاتا ہے تو وہ اسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔‘‘
تو یہ صحیح حدیث تمام لٹکائی جانے والی چیزوں کےبارے میں مطلق ہے ۔ دیکھیں ترغیب للمنذری (4/ 306)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب