السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے مجھ پر ا عتراض کیا کہ آدم علیہ السلام کی نبوت پر کوئی دلیل نہیں اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہو تو ہمیں بیان کریں ۔ (عبد الرحمن الکنری)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ معترض شاید ابا حی دھریہ میں سے ہو جو لوگوں کو ادیان سماویہ سے نکلنے کی دعوت دیتے ہیں آدم علیہ السلام کی نبوت پر کتاب وسنت اور اجماع امت کی ایسی دلیلیں ہیں کہ ان کا کو ئی جواب نہیں ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے :
﴿ إِنَّ اللَّـهَ اصطَفىٰ ءادَمَ وَنوحًا وَءالَ إِبرٰهيمَ وَءالَ عِمرٰنَ عَلَى العـٰلَمينَ ٣٣﴾... سورة آل عمران
’’اللہ نے آدم اور نوح اور آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا ۔‘‘
یہ آیت آدم علیہ السلام کی نبوت پر صریح ترین دلیل ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے، اور ان لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی پر سوار کیاتھا‘‘ (مریم : آیت 58)۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’جب تمہارے رب نے فرشتوں37 سے کہا تھا کہ” میں زمین میں ایک خلیفہ 38 بنانے والا ہوں‘‘ (البقرہ: 30)
آپ کی نبوت پر دلالت کرنے والی آیتیں بہت ہیں ۔
سنت کی دلیل :
ابوذر سے مروی ہے ، کہتے ہیں : میں نےکہا اے اللہ کے رسول! نبیوں میں سے کون پہلے تھے ؟ فرمایا: ’’آدم (علیہ السلام پہلے تھے) ‘‘۔ میں نے کہا ، اے اللہ کے رسول! : وہ نبی تھے کیا : ’’ہاں مکلم تھے ‘‘ الحدیث ۔ مسند احمد (5/178) ۔ مشکوۃ : (2/ 511) ۔ دیکھیں ابن کثیر ، (1/ 585) مجمع الزوائد (1/ 159۔160) اور (8/ 210) ۔
رہا اجماع : تو تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آدم علیہ السلام نبی تھے اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا تھا ۔ اور اس میں پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا اور ایسا اجماع قطع اور یقین کا فائدہ دیتا ہے اور باب عقیدہ میں اس کا انکار کفر بواح ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب