السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کوئی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے بحق فلاں ، بحرمة فلا، ، بجاه فلان كى طفیل اور فلاں کی برکت کہہ سکتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ تمام دعائیں محدث ہیں ، سنت کی تتبع کرنے والے کو اس میں سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا ۔ یہ اظهر من الشمس ہے کہ دعا عبادت ہے اور عبادات توقیف و اتباع پر مبنی ہیں ، خواہشات و بدعات کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جامع دعائیں بتائی ہیں ، اس میں بعض جاہلون کےگھڑے ہوئے کلمات اور محدث الفاظ کے پیوند کاری کی کوئی ضرورت نہیں ، اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ شرعی کلمہ کو بدلنے اور اس کی جگہ من گھڑت کلمہ رکھنے سے اللہ کے عذاب کا نزول نہ ہو گا ، بلکہ یہ نزول عذاب کا موجب ہے جیسے بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہوا تھا جب انہیں کلمہ ’’حطة ‘‘ کہنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اسے بدل کر ’’حنطة ‘‘ کہا تھا جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَأَنزَلنا عَلَى الَّذينَ ظَلَموا رِجزًا مِنَ السَّماءِ بِما كانوا يَفسُقونَ ٥٩﴾... سورة البقرة
’’ آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا ۔ یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے۔ ‘‘
صحیح بخاری (1/ 28) میں براء بن عازب سے روایت ہے جب انہیں رسول اللہ ﷺ نے سونے کی دعا سکھائی اور اس میں یہ فرمایا : ’’وبنيك الذى أرسلت ‘‘ براء کہتے ہیں میں نے یہ دعا نبی ﷺ کو سنائی جب یہاں پہچا ، ’’اللهم امنت بكتابك الذى أنزلت‘‘ تو میں نے کہہ دیا : ’’و رسولك الذى ارسلت ‘‘ تو آپ نے فرمایا نہیں ، ’’و بنيك الذى ارسلت ‘‘ پڑھ ، تو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ شرعی کلمے کی تبدیلی جائز نہیں ۔
توس وال میں جن کلمات کا ذکر ہے ان کے ساتھ دعا کرنا بدعت و من گھڑت ہے ۔
جسے مرغینانی نے الھدایۃ (4/ 475) کتاب الکراھیۃ میں فرمایا ہے :
’’کسی شخص کا اپنی دعا میں بحق فلاں ، بحق انبیائک ورسلک ‘‘ کہنا مکروہ ہے کیونکہ خالق پر مخلوق کا کوئی حق نہیں ‘‘۔
اور علی القاری کی شرح فقہ اکبر ص: (161)میں ہے :
’’امام ابو حنیفہ اور صاحبین کہتے ہیں کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں تجھ سے مانگتا ہوں بحق فلان ،یا بحق تیرے انبیاء ورسل کے اور بحق بیت الحرام اور شعر حرام کے اور اس طرح کے الفاظ کہنا مکروہ ہے ، کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں ‘‘۔
فتاویٰ عالمگیری : (4۔119) میں ہے : ’’کسی شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے ،’’بحق فلاں ‘‘ اوراس طرح بحق انبیاء و رسل اور اولیاء اور بحق بیت اللہ یا مشعر حرام کہنا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کسی مخلوق کا کوئی حق نہیں جو بندوں کا اللہ پر واجب ہو ‘‘۔
اور شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن المصری رحمہ اللہ ، منہاج التاسیس ، ص : (155) میں فرماتے ہیں :
’’لوگوں کا کہنا ، اے اللہ بجاہ تیرے فلاں بندے کے اور بحر مت فلان تیرے بندے کے ، اور تیرے فلان بندے کی برکت کے ساتھ میرا فلان کام کر دے ، تویہ صحابہ تابعین اور سلف امت میں کسی سے منقول نہیں ‘‘۔
اور امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ الکافی ص(22) میں فرماتے ہیں :
’’اور ان جہال میں بعض فقراء اور مشائخ کی محبت کی وجہ دھوکے میں پڑ جاتے ہیں ، اور ان کے مقبروں کو کثرت سے آتے جاتے ہیں ، ان کےلیے عاجزی کرتے اور شفاعت طلب کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی طرف وسیلہ بناتے ہیں اور ان کے حق و حرمت کےساتھ سوال کرتے ہیں اور لفظ جاہ ، حرمت اور طفیل کے ساتھ دعا کرتے ہیں بعض متاخرین نے اسے جائز قرار دیا ہے اور کتابوں میں اس کی تصریح کی ہے اور صوفیاء نے اپنے سلسلوں اور شجروں میں ذکر کیا ہے ۔
اس طرح مولانا رشید احمد گنگوہی نے اپنےفتاوی رشیدیہ میں جائز قرار دیا ہے جیسے کہ کتب حنفیہ میں مذکور ہے اور ان کا ان کلمات کو جائز قرار دینا علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں ذکر کردہ تاویل پر مبنی ہے ۔
حاصل اس کا یہ ہے کہ یہ توسل اللہ کی صفت کے ساتھ توسل کی طرف راجح ہے اس طرح ’’طفیل ‘‘ کا لفظ اتباع کے معنی کی طرف راجح ہے جس طرح اس لفظ کی گردان اس پر دلالت کرتی ہے تو توسل بالعمل الصالح ہوا ۔
لیکن جو لوگ ان کلمات کے ساتھ توسل کرتے ہیں وہ ان تاویلات سے غافل ہوتے ہیں مخفی نہیں ۔ اس لیے جائز نہیں ، اسی لیے میں کہتا ہوں ، حق بات یہی ہے کہ یہ الفاظ من گھڑت ہیں کیونکہ نہ تو یہ نبی ﷺ سے صحیح حدیث میں منقول ہیں ، نہ خیر القرون میں صحابہ اور تابعین سے پس اللہ اور رسول کے علاوہ کس کے قول میں کوئی حجت نہیں ۔ خصوصاً متاخرین کے قول میں کوئی حجت نہیں بلکہ کوئی اعتبار نہیں کیونکہ وہ اپنی بدعی تجویزات میں کوئی دلیل بیان نہیں کرتے ۔
دقیق تحقیق کے لیے ہمارے شیخ السید ابو زکریا عبد السلام ’’حفظہ اللہ ‘‘ کی کتاب ’’التبیان ‘‘ کا مطالعہ کریں۔
ابن ماجہ کی حدیث( 1/ 256) ،رقم : (778)
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ وَبِحَقِّ مَمْشَاىَ] الحدیث »
تو یہ مبتدعین کی دو وجہ سے دلیل نہیں بن سکتی :
پہلی وجہ : اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس کی سند میں فضیل بن مرزوق راوی ہے جسے محدثین کی ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے اور اس کی سند میں عطیہ راوی صدوق کثیر الخطاء ہے ، یہ شیعہ اور مدلس تھا ۔
تیسری علت اس میں اضطراب کی ہے ، اس حدیث کو عطیہ کبھی مرفوع تو کبھی موقوف بیان کرتا ہے ۔
تفصیل کےلیے دیکھیں السلسلة الضعيفة (1/ 34) رقم :4) ۔ اور اس طرح رقم : (22) میں لفظ جاہ پر رد کیا ہے ، اس طرح رقم: (23) میں موضوع اور ضعیف روایات بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔
دیکھیں مجمع الزوائد (9/ 257) اور حلیۃ الاولیاء (3/ 121) ۔
دوسری وجہ : سائلین کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے تو اس میں اور اس جیسی ہم معنیٰ عبارتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف مخلوق کو وسیلہ بنانے میں سے کچھ بھی نہیں پایا جاتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں سے صفت قبولیت کے ساتھ توسل ہے ، رجوع کریں فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (1/ 339) اور انواع التوسل والوسیلة للشيخ الالبانى .
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب