سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) عمردراز کرنے کی دعا کی حقیقت

  • 11976
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1257

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لوگ دعا میں کہتے ہیں ’’اللہ عمر دراز کرے ، اللہ تاویر باقی رکھے ‘‘ کیا اس جیسی دعائیں کی جا سکتی ہیں اور اس کے جواز و منع کی کیا دلیل ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درازئی عمر اور تادیر باقی رہنے کی دعا مکروہ ہے جیسے کہ امام ابن قیم ﷫ نے زاد المعاد : (2/ 42) نے فرمایا ہے ، الفاظ مکروحہ میں سے ہیں : بعض ایسی اشیاء کا صراحت سے نام لینا جب کہ وہاں کنایہ مناسب ہو جیسے : اطال الله بقاءك(اللہ تمہیں تادیر باقی رکھے ) ’’وأدام أيامك ‘‘ (آپ کے روز وشب ہمیشہ رہیں ) وعشت ألف سنة ( آپ ہزار سال جئیں ) وغیرہ یا یہ کہے : الصائم وحق ختم علی فم الکافر ، یا ٹیکس کو حقوق کہنا ، یا اللہ کی طاعت میں خرچ کرنے والا کہے ، غرمت او خسرت کذا و کذا ، (میں نے اتنا خسارہ کیا ) ، یا یہ کہے :

’’أنفقت فى هذه الدنيا مالا كثيرا‘‘ (میں نے اس دنیا میں بہت مال خرچ کیا ) یا مفتی کا اجتہادی مسائل میں کہنا : ’’أحل الله كذا وحرم كذا ‘‘ (اللہ نے فلاں چیز حلال کی یا فلاں چیز حرام کی )

حل وحرمت کی صراحۃ نسبت ان چیزوں میں کی جاتے جس میں نص صریح موجود ہو ۔

 یا قرآن وسنت کے دلائل کو ظواہر لفظی اور مجازات کہے ، اس قسم کے نام لینے سے دلوں سے قرآن وسنت کی حرمت محو جاتی ہے ، خاص کر اس کے ساتھ ساتھ متکلمین اور فلاسفہ کے شبہات کو قواطع عقلیہ کہے ، لا الہ الااللہ ان دو ناموں سے عقول و ادیان میں اور دنیوی دینی کیسے کیسے فساد برپا ہوتے ہیں ۔

شیخ ابن العثیمین نے اپنے مجموع فتاویٰ (2/ 225۔226) میں فرمایا ہے : ’’طول البقاء‘‘ کہنا مناسب نہیں کیونکہ طول البقاء اچھی ہو سکتی ہے اور بری بھی وہ لوگ برے ہیں جن کی عمر لمبی خراب ہو ، اس لحاظ سے اگر کوئی یوں کہے ، أطال الله بقائك على طاعته (اللہ اپنی اطاعت کے لیے تمہیں تادیر باقی رکھے ) تو میں کوئی حرج نہیں ، اور آپ نے فرمایا : لوگوں کا کہنا ، ’’أدام الله ايامك‘‘ (اللہ آپ کے ایام دائم رکھے ) دعا میں حد سے بڑھنا ہے کیونکہ ایام کا دوام محال ہے اور اللہ کے قول :

﴿كُلُّ مَن عَلَيها فانٍ ﴿٢٦ وَيَبقىٰ وَجهُ رَ‌بِّكَ ذُو الجَلـٰلِ وَالإِكر‌امِ  ٢٧﴾...سورة الرحمٰن

’’ہر چیز  جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے۔اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے ۔‘‘ (رحمٰن ﷤ 26۔27)

اور اللہ کے قول :

﴿وَما جَعَلنا لِبَشَرٍ‌ مِن قَبلِكَ الخُلدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِتَّ فَهُمُ الخـٰلِدونَ  ٣٤﴾... سورة الانبياء

’’اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ، ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟‘‘کے منافی ہے ۔

تو اہل پشتو کا یہ کہنا ’’زر کلنے شے ‘‘ (ہزار سالہ ہو جاؤ) مکروہ ہے ، ۔ واللہ اعلم ۔

(لیکن دوسری تحقیق میں ہمیں بعض روایات مل گئی کہ ان سے عمر کی درازی کے دعا کرنے کی جواز معلوم ہو تی ہے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے انس بن مالک کے بارے میں یہ دعا کی : ’’اللهم اكثر ماله و ولده واطل عمره واغفرله ‘‘۔ (اے اللہ ! اس کا مال اور اور اولاد زیادہ فرما ، اور اس کے عمر میں طوالت فرما اور اس کی گناہ معاف فرما ) ۔ ( الادب المفرد للبخاری ص (653) والصحیحۃ (6/ 94) رقم (2541) ۔ یہ مسئلہ اس فتاوی کی آٹھویں جلد میں بھی بیان ہو چکی ہیں ۔ رقم المسئلہ : (1886) ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص43

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ