سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) شیطان سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر

  • 11975
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5246

سوال

(02) شیطان سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیطان سے بچنے کے کیا طریقے ہیں ؟ تاکہ ہم اس کھلے دشمن سے بچ سکیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنت مطہرہ امت اسلامیہ کو معطر حکمتیں ، مہذب اخلاق اور ہر شے سے پچنے کے لیے بہترین طریقے پیش کرتا ہے ۔ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہم اس کا علم ومعرفت اور قول وعمل کے لحاظ سے اہتمام بلیغ کریں ۔ ان میں ہر پیچیدہ مرض کا شافی علاج موجود ہے ۔ سردست شیطان سے حفاظت کے لیے گیارہ چیزیں ذکر کی جاتی ہیں تاکہ ہم اور عام مسلمان ان سے فائدہ اٹھا سکیں ۔

٭حرز اول :

شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَميعٌ عَليمٌ  ٢٠٠﴾...سورة الاعراف

’’اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘

عدی بن ثابت روایت کرتے ہیں حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا اور دو آدمی باہم گالم گلوچ کر رہے تھے ان میں سے ایک کا منہ (مارے غصہ کے) لال ہوگیا اور رگیں پھول گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک ایسی بات جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اس بات کو کہدے تو اس کا غصہ جاتا رہے اگر یہ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ کہ دے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے‘‘۔ (صحیح بخاری (2/ 903)

٭دوسرا حرز:

معوذتین کی قرات بھی شیطان کو دور کرنے اور اس کے شر سے محفوظ کرنے میں بڑا عجیب اثر رکھتی ہے ۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا:[ما تعوذ المتعوذون بمثلها] پناہ پکڑنے والوں نے اس جیسی پناہ نہیں پکڑی )۔

سنت میں ان دونوں سورتوں کا سوتے وقت ایک بار پڑھنا ثابت ہے ، ایک قول میں تین بار پڑھنا ہے ، اس طرح فرض نمازوں کے بعد ایک ایک بار پڑھنا اور صبح و شام سورۃ اخلاص سمیت تین تین بار پڑھنا ثابت  ہے ۔

نبی ﷺ نے فرمایا ،[كفته من كل شىء] پڑھنے والے کو یہ ہر چیز کے شرت سے کافی ہیں ‘‘۔ ان کی اسانید صحیح ہے ۔(مشکوۃ 1/ 80و188)۔

٭تیسرا حرز:

فرض نمازوں کےبعد اور سوتے وقت آیت الکرسی کا پڑھنا ، حدیث صحیح میں ابو ہریرہ ﷜ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :

« وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنْ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ فَذَكَ الْحَدِيْثُ اِلى أَنْ قَالَ - إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ فَاِنَّهُ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنْ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، ذَاكَ شَيْطَانٌ »

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی زکوة کی حفاظت پر مقرر فرمایا میر ے پاس ایک شخص آیا اور لپ بھر کر اناج لینے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا ،آگے حدیث بیان کی یہاں تک کہ اس نے کہا جب تو اپنے بستر پر جائے تو آیت الکرسی پڑھ لے تواللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیری نگرانی کر یگا اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گاتو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس نے ٹھیک کہا ،لیکن وہ شیطان ہے ) ۔‘‘             بخاری (2/ 749)مشکوۃ (1/ 158)

حدیث صحیح میں  بروایت ابو امامہ باہلی ﷜ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جو ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھتا ہے اس کے اور دخول جنت میں صرف موت ہی حائل ہے ‘‘۔ ابن السنی رقم 121) ، مجمع الھیثمی (10/ 102) حلية لابى نعيم (3/ 221) السلسله للالبانى (69702) رقم :(972) مشكاة رقم (974) صحيح ابن حبان ، عمل اليوم والليلة للنسائى: (49) رقم: (100) المنذرى فى الترغيب (2/ 403)

حدیث شواہد کے ساتھ صحیح ہے جس نے اس حدیث کی تضغیف کی ہے اس نے مشکوٰۃ کی حدیث کی سند دیکھی ہے ۔

٭چوتھا حرز :

سورۃ البقرہ کی قرات ۔

حدیث صحیح میں ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنْ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ»

’’تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس گھر میں سورت البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔‘‘ مسلم (1/ 260) ، مشکوۃ (1/ 184) ، ترمذی( 2/ 110)۔

٭پانچواں حرز:

سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں ،

حدیث صحیح میں ہے ابو موسیٰ اشعری ﷜ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«من قرأ الآيتان من آخر سورة البقرة في ليلة كفتاه»

’’ جو شخص رات میں سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھتا ہے تو اس کے لئے وہ کافی ہیں۔ ‘‘۔ بخاری (2/ 749)، مشکوٰۃ (1/ 180)

اسی طرح نعمان بن بشیر ﷜ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَلَا يُقْرَأَانِ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ»

’’ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دوہزار سال پہلے کتاب لکھی اس میں دو آیتیں نازل کر کے سورت بقرہ کو ختم کیا گیا۔ اگر یہ آیتیں کسی گھر میں تین رات تک پڑھی جائیں تو شیطان اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔‘‘اس کی سند صحیح ہے ۔ ترمذی (2/4) مشکوٰۃ (1/ 180۔ رقم 2145)۔

٭چھٹا حرز :

ابتدائے سورۃ حم المؤمن سے لے کر ’’اليه المصير‘‘ تك اورآيت الكرسى۔

حدیث عبدالرحمن بن ابی بکر ہے وہ ابن ابی ملیکہ سے اور وہ زرارۃ بن مصعب سے اور وہ ابو سلمہ سے اور وہ ابو ہریرہ ﷜ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«مَنْ قَرَأَ حم الْمُؤْمِنَ إِلَی إِلَيْهِ الْمَصِيرُ وَآيَةَ الْکُرْسِيِّ حِينَ يُصْبِحُ حُفِظَ بِهِمَا حَتَّی يُمْسِيَ وَمَنْ قَرَأَهُمَا حِينَ يُمْسِي حُفِظَ بِهِمَا حَتَّی يُصْبِحَ»

’’ جس نے صبح کے وقت (حم الْمُؤْمِنَ إِلَی إِلَيْهِ الْمَصِيرُ وَآيَةَ) تک پڑھی اور آیة الکرسی پڑھی تو آیات کی برکت سے اس کی شام تک حفاظت کی جائے گی اور جو شام کو پڑھے گا تو اس کی صبح تک حفاظت کی جائے گی۔‘‘

امام ابن قیم  فرماتے ہیں عبد الرحمن الملیکی حافظہ کے لحاظ سے متکلم فیہ ہیں ،آیت الکرسی کی قرات میں حدیث کے شواہد ہیں ۔ اس کی غرابت کا احتمال ہے ، اور دارمی (2/ 323) نے بھی نقل کی ہے لیکن اس کی سند میں ضعف ہے ۔

٭ساتواں حرز :

[لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ]۔ (سو بار)۔

صحیحین میں ابو ہریرہ ﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا:

«مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ، كَانَتْ لَهُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ، وَكَانَتْ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ يَوْمَهُ ذَلِكَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِهِ، إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ »

مشکوۃ میں بھی ہے ۔

[جو لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ]روزانہ سو بار کہتا ہے تو اسے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا ، اس کی نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور سو گناہ مٹا دیے جائیں گے اور اس دن وہ شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا ۔ اور اس سے افضل کسی نے نہیں کی ، لیکن وہ شخص جو اس سے زیادہ عمل کرتا ہے )۔

تویہ بڑے فائدے والاحرز ہے اور ا للہ جس کے لیے آسان بنا دے نہایت ہی آسان ہے ۔

 یہ کلمہ صبح و شام دس بار بھی وارد ہے ۔ ابو داؤد (3/ 957) ۔ ابن ماجہ : (2/ 3867)۔

٭آٹھواں حرز :۔

ذکر الہٰی کی کثرت :

 یہ شیطان کے حرزوں میں  سب سے زیادہ نفع بخش ہے ۔ بسند صحیح حارث اشعری﷜ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

’’ یقیناً اللہ تعالیٰ نے یحییٰ ابن زکریا علیہ السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا تا کہ وہ خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل کو عمل کرنے کا کہیں ۔قریب تھا کہ وہ دیر کر دیتے تو عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں فرمایا:اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ باتوں کا حکم دیا تاکہ آپ بھی اس پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی عمل کرنے کا حکم دیں ۔ تو آپ انہیں حکم دیں یا پھر میں انہیں حکم دیتا ہوں ۔ یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے ڈر ہے اگر آپ نے مجھ سے سبقت کی تو مجھے عذاب دیا جائے گا ، اور دھنسا دیا جائے گا ۔‘‘

یحییٰ علیہ السلام نے تمام لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا جب مسجد بھر چکی تو آپ کو اونچی جگہ پر بٹھایا گیا ، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے جس پر مجھے بھی عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور تمہیں بھی :

پہلی بات : اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو ، اور شرک کی مثال اس کی شخص کی کی سی ہے جو اپنے زر خرید غلام کو کہتا ہے کہ  یہ میرا گھر اور یہ میرا کام ، تو کام کرتا  جا اور مزدوری مجھے ادا کرتا جا ، لیکن وہ مزدوری کر کے اجرۃ اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کو دے آتا ہے تو تم میں سے کو ن چاہتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو ۔

دوسری بات : اللہ تعالیٰ نے تمہیں نماز کا حکم دیا ہے تو جب نماز ادا کرنے لگو تو ادھر ادھر دیکھو۔ اللہ تعالیٰ اپنا منہ نماز میں بندے کی منہ کی طرف کرتا ہے جب تک وہ ادھر ادھر نہ دیکھے۔

تیسری بات : اللہ تعالیٰ نے تمہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے ، روزہ دار کی مثال کسی جماعت میں اس شخص کی سی  ہے جس کے پاس تھیلی میں مشک ہو، اسے اور سب لوگوں کو اس کی خوشبو اچھی لگتی ہے ، روز ہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ اچھی ہے ۔

چوتھی بات : اسی نے تمہیں صدقے کاحکم دیا ہے ،صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کو دشمن نے قید کر رکھا ہے اور اس کے ہاتھ گردن کے ساتھ باندھ دئیے ہیں اور اسے گردن اڑانے کے لیے لے آتے ہیں تو وہ کہتا ہے میں اپنا سب کچھ فدئے میں میں دینے کےلیے تیار ہوں تو فدیہ دے کر وہ اپنے آپ کو ان سے چھڑا لیتا ہے ۔

پانچویں بات :  اور تمہیں ذکر اللہ کا حکم دیتا ہے ذکر کرنے والی کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کا دشمن بڑی تیزی سے پیچھا کرر ہا ہے یہاں تک کہ وہ ایک مضبوط قلعے میں داخل ہو کر اپنے آپ کو ان سے بچا لیتا ہے اسی طرح بندہ اپنے آپ کو شیطان سے ذکر سے بچا سکتا ہے ۔

نبی ﷺ نے فرمایا:

«وَأَنَا آمُرُكُمْ بِخَمْسٍ اللَه أَمَرَنِي بِهِنَّ: السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ وَالْجِهَادُ وَالْهِجْرَةُ وَالْجَمَاعَةُ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ إِلَّا أَنْ يَرْجِعَ وَمَنْ ادَّعَى دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّهُ مِنْ جُثَا جَهَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ؟ قَالَ: وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ, فَادْعُوا بِدَعْوَى اللَّهِ الَّذِي سَمَّاكُمْ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللَّه»

’’میں بھی تمہیں پانچ چیزوں کاحکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے امیر کی بات سننا اس کی اطاعت کرنا ، جہاد کرنا ، ہجرت کرنا ، اور مسلمان کی جماعت کے ساتھ رہنا جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے بالشت بھر بھی جدا ہو گا تو گویا اس نے اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے اتار دیا ۔ جب تک وہ رجوع نہ کرے اور جو جاہلیت کے دعوے کرتا ہے وہ جہنمی ہے ، ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول اگر وہ نماز پڑھتا ہو روزے رکھتا ہو ۔ فرمایا اگرچہ وہ نمازیں پڑھتا ہو ، روزے رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو، پس اللہ کی دعوت اختیار کرو ، اس نے تم پرمسلم ، مؤمن ، عباد اللہ نام لیا ہے )۔

اس حدیث میں بڑے فائدے کی باتیں ہیں جن کا یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ،

اسی لیے میں نے یہ طویل حدیث پوری ذکر کی ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ بندہ اپنے آپ کو شیطان سے ذکرکرکے ذریعے بچا سکتا ہے ۔

اس مفہوم میں سورۃ قل اعوذ برب الناس بھی دلیل ہے اس میں شیطان کو خناس کہا گیا ہے ، خناس  اسے کہتے ہیں جو بندہ کے ذکر کرتے وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب ذکر سے غافل ہوتا ہے تو دل کی گرفت میں لے کر وسوسے ڈالتا ہے جو تمام شروں کی ابتداء ہوتی ہے ، پس بندوں کےلیے اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ کرنے کےلیے ذکر اللہ جیسی کوئی چیز نہیں ۔

٭نواں حرز :

نماز اور وضوء:

یہ دونوں بہت حرز ہیں خاص کر غضب و شہوت کے وقت یہ آگ ہوتی ہے جو انسان کے دل میں بھڑکتی ہے ۔

ترمذی میں بروایت ابو سعید خدری ذکر ہے ، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے  ہیں آپ فرماتے ہیں :

[إِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَی حُمْرَةِ عَيْنَيْهِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْئٍ مِنْ ذَلِکَ فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ]

’’ غضب ابن آدم کے دل میں ایک چنگاری ہے کیا تم اس کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی گردن کی رگوں کے پھولنے کو نہیں دیکھتے پس جسے غصہ آئے اسے زمین پر لیٹ جانا چاہئے‘‘

ایک اثر میں ذکر ہے :

[الشيطان خلق من نار وإنما تطفأ النار بالماء]

’’شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے ‘‘

میں کہتا ہوں : اس کی سند ضعیف ابی داؤد رقم : (4784) میں ہے ۔

تو بندہ کے لیے غضب و شہوت کی آگ بجھانے کے لیے وضوء ونماز جیسی کوئی چیز نہیں ، اس آگ کووضوء و نماز بجھا دیتی ہیں ۔

نماز جب نہایت خشوع اور اللہ کے ساتھ لگا کر پڑھی جائے تو ان تمام اثرات کو ختم کر دیتی ہے ۔

تجربہ کرنے کی صورت میں دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔

٭دسواں حرز :

دخول مسجد کے وقت بندے کا

«أعوذ بالله العظيم و بوجهه الكريم وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم» (ابو داؤد رقم :466) بسند صحيح۔

’’جو یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے سارا دن مجھ سے محفوظ ہو گیا ۔‘‘

٭گیارہواں حرز :

عبد اللہ بن مسعود ﷜ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :

«قَرَأَ أَرْبَعَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَآيَةَ الْكُرْسِيِّ، وَآيَتَانِ بَعْدَ آيَةِ الْكُرْسِيِّ، وَثَلَاثًا مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَمْ يَقْرَبْهُ وَلَا أَهْلَهُ يَوْمَئِذٍ شَيْطَانٌ، وَلَا شَيْءٌ يَكْرَهُهُ، وَلَا يُقْرَأْنَ عَلَى مَجْنُونٍ إِلَّا أَفَاقَ» [امام دارمی (2/ 322رقم :3386)]

’’جو سورۃ بقرہ کی اول چار آیتین آیۃ الکرسی ، اور اس کے بعد دو آیتیں اور سورۃ بقرہ کی آخری تین آیتیں پڑھتا ہے تو اس شخص اور اس کے اہل کے قریب نہ شیطان پھٹکتا ہے اور نہ ہی کوئی مکروہ چیز ۔ اور مجنون پر اگر پڑھی جائیں تو اسے افاقہ ہو جاتا ہے ۔ ‘‘

اس کی سند موقوفاً صحیح ہے ۔

٭بارہواں حرز :

بے فائدہ دیکھنے ، فضول باتوں ، بسیار خوری اور عام لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے رکنا۔شیطان انہی چار دروازوں سے انسان پر مسلط ہو کر اپنی غرض پوری کرتا ہے ، بے فائدہ ادھر ادھر دیکھنے سے کوئی صورۃ اچھی لگ جاتی ہے پھر وہ صورۃ دل میں جا گزیں ہوتی ہے اور انسان کو مشغول کر لیتی ہے پھر اس کے حصول کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے تو اس سارے فتنے کی ابتداء نظر فضول سے ہوئی ۔

مستدرک میں نبی ﷺ سے روایت ہے آپ نے فرماتے ہیں :

«النظرة سهم مسموم من سهام ابليس فمن غض بصره أورثه الله حلاوة يجلدها فى قلبه الى يوم يلقاه»

’’دیکھنا اور تاڑنا ابلیس کا زہریلا تیر ہے جو نظریں نیچی رکھتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ ایسی حلاوت پیدا فرماتا ہے جس کی لذات اللہ سے ملاقات کے دن تک دل میں رہتی ہے ۔‘‘

بڑے بڑے حوادث کا سبب یہی تاک تاڑ ہے جس کا انجام ایک حسرت نہیں بے شمار حسرتیں ہوتی ہیں ، جیسے شاعر نے کہا ہے :

كـل الحوادث مبدأها من النظر

ومعظم النار من مستصغر الشرر
كم نظرة فتكت في قلب صاحبها

فتك الســهام بلاقوس ولاوتر

تمام حوادث كی ابتداء دیکھنے سے ہوتی ہے ، بڑی آگ چھوٹی سی چنگاری سے ہی بھڑکتی ہے ۔

کئی نظریں اس کے صاحب کے دل میں گمان کے بغیر تیر کی طرح گھائل کرتی ہیں ۔

ایک دوسرا شاعر کہتا ہے :

وكنتَ متى أرسلتَ طرفكَ رائداً

 لقلبكَ يوماً أتبعتكَ المناظرُ
رأيتَ الذي لا تأكلهُ أنتَ قادرٌ

عليه ولا عنْ بعضهِ أنتَ صابرُ

اور جب بھی تو دل کی خوشنودی کے لیے اپنی نظر دوڑاتا ہے تومختلف مناظر تجھے تھکا دیتے ہیں ۔

تو دیکھتا ہے کہ نہ تو سب پر تو قدرت رکھتا ہے اور نہ بعض سے تو صبر کر سکتا ہے ۔

اما م ابن قیم  سے بدائع الفوائد (2/ 271) میں کہتے ہیں ، مقدمہ شرح العقیدہ الطحاویہ میں بھی مذکور ہے :

يا راميا بسهام اللحظ مجتهدا

أنت القتيل بما ترمي فلا تصب

اے وہ جو نظر کا تیر مارنے میں بڑی کوشش کرتا ہے تو جو تیر تومارتا ہے اس سے تو ہی قتل ہوتا ہے ۔ پس تو نے کوئی ٹھیک کام نہیں کیا ۔

وباعثَ الطرف يرتاد الشفاء له

 توقَّه ، إنه يرتد بالعطب

اور نظر کو بھیجنے والے کہ تو اس کےلیے شفاء طلب کرے ، وہ تو تیرے لئے ہلاکت طلب کرتی ہے ۔

ترجو الشفاء بأحداق بها مرضٌ

 فهل سمعت ببرءٍ جاء من عطب

تو ان آنکھوں سے شفاء کی امید رکھتا ہے کہ جن میں بیماری ہے ، تو کبھی تو نے سنا ہے کہ ہلاکت سے بھی صحت آتی ہے۔

ومفنيا نفسه في إثر أقبحهم

وصفاً للطخ جمال فيه مستلب

اور اپنے آپ کو ایسی چیز کے پیچھے ہلاک کرنے والا ہے جو بلحاظ وصف کے قبیح ترین ہے اور اس میں جو جمال کی آمیزش ہے وہ سلب ہونے والی ہے ۔

وواهبا عمره في مثل ذا سفها

لو كنت تعرف قدر العمر لم تهب

اور اپنی عمر کو بے وقوفی سے اس جیسی قبیح چیز کو ہبہ کر رہا ہے ، اگر تو عمر کی قدر جانتا تو اسے ہبہ نہ کرنا ۔

وبائعا طيب عيش ماله خطر

بطيف عيش من الآلام منتهب

اور اے اپنی بےخطر اچھی زندگی کو بیچنے والے ! اس خیالی زندگی سے جو مصائب و آلام سے لوٹ گیا ہے ۔

غبنت والله غبنا فاحشا فلو

استرجعت ذا العقد لم تغبن ولم تخب

اللہ کی قسم تم نے بہت بڑا نقصان اٹھایا اگر کسی ذی عقل سے رجوع کرتے تو نہ نقصان اٹھاتے نہ محروم ہوتے  ۔ﷺ

ووارداً صفو عيشٍ كله كدر

أمامك الورد صفواً ليس بالكذب

اور اے (دنیاوی ) زندگی میں وارد ہونے والے جسے تم صاف سمجھتے ہو ، یہ حقیقت میں مکدر ہے اور گلاب کی طرح صاف زندگی (آخرت) تمہارے آگے ہے ، یہ جھوٹ نہیں ہے ۔

و حاطب الليل في الظلماء منتصبا

لكل داهية تدنى من العطب

اور  اے اندھیری رات میں لکڑیاں اکٹھی کرنے والے اور ہر مصیبت کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے تم ہلاکت کے قریب ہو رہے ہو ۔

شاب الصبا والتصابي بعد لم يشب

وضاع وقتك بين اللهو واللعب

تمہارے بچپن بڑھاپے تک پہنچ گئے لیکن بچپن کی حوابھی تک بوڑھا نہیں ہوا اور تیرا وقت لہو و لعب میں ضائع ہوا ۔

وشمس عمرك قد حان الغروب لها

والضئ في الافق الشرقي لم يغب

تیری عمر  کے سورج کا وقت غروب ہو چکا لیکن بچپن کی خو ، اب تک شرق افق میں ہے اور غروب نہیں ہو رہی ۔

مقصد یہ ہے کہ بلا فائدہ تاکنا جھانکنا ہی اصل مصیبت ہے ، اور فضول باتیں انسان کے لیے شر کے دروازے کھول دیتا ہے جہاں سے شیطان کا آنا جانا ہوتا ہے تو فضول باتوں سے اجتناب کی وجہ سے یہ تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں ، اکثر بڑی بڑی جنگوں کا سبب چھوٹی سی بات ہی ہوتی ہے ، فضول باتوں کے مفاسد کا احصار ممکن نہیں حدیث میں آتا ہے نبیﷺ نے معاذ کو فرمایا: (قیامت کے دن ) اکثر لوگون کا اوندھے منہ جہنم  میں گرنے کا سبب ، زبان کی کٹی فصل ہی ہو گی ، احمد وغیرہ ۔

اکثر معاصی کا سبب فضول بکنا اور فضول تاک جھانک ہوتا ہے ، اور ان میں شیطان دخل اندازی کے وسیع امکانات ہوتے ہیں اور دونوں کام کرنے والے نہ اکتاتے اور نہ تھکتے ہیں بخلاف پیٹ کی شہوت کے کہ جب پیٹ بھر جاتا ہے تو کھانے کی طلب نہیں رہتی ، اور اگر آنکھ اور زبان کو دیکھنے بولنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو اس میں فتور نہیں آتا اس لیے ان کی جنابت کا دائرہ وسیع الاطراف ہے ۔ ترغیب وترھیب للمنذری : (3/ 521) رقم (545)۔

اسی طرح بسیار خوری بھی مختلف النوع برائیوں کی طرف دعوت دیتی ہے اس سے اعضاء کی معاصی کی طرف تحریک ملتی ہے اور طاعات سے مشغول کر دیتی ہے اس کے یہی دو شرکافی ہیں کتنی ہی معصیتیں ہے جنہیں بسیار خوری کھینچ لاتی ہے اور کتنی ہی طاعتوں کے یہ آڑھے آتی ہے تو جو پیٹ کے شر سے بچ گیا وہ بہت بڑے شر سے محفوظ ہو گیا ، شیطان کا انسان پر تسلط شکم سیری کے وقت زیادہ مستحکم ہوتا ہے اسی لیے بعض اثار میں ذکر ، روزہ رکھ کر شیطانی گزرگاہوں کو تنگ کرو ۔

اور نبی ﷺ نے فرمایا ہے : ’’انسان نے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں بھرا‘‘۔

اسی طرح فضول میل جول بڑی گنجلک بیماری ہے جو ہر شر کی جڑ ہے ۔ میل جول کتنی ہی نعمتوں سے محرومی کا سبب بنی اور اس نے کتنی ہی عداتوں کے بیج بوئے ۔

فضول مخالطۃ ( میل جول ) میں دنیا  وآخرت کا خسارہ ہے اس لیے انسان  کو یہ بقدر حاجت اختیار کرنی چاہیے ۔

اس باب میں لوگوں کی چار قسمیں ہیں اس میں سے کسی قسم کا دوسری قسم کے ساتھ ملانا باعث شر ہے ۔

٭قسم اول :

ان کے ساتھ مخاطب کی دن رات میں عذاب کی مانند ضرورت رہتی ہے ، جب ضرورت پڑے تو ان سے ملنا چاہتے اور جب ضرورت پوری ہو تو چھوڑ دینا چاہیے اور یہ طرز عمل دائم اور مستمر ہونا چاہیے ، یہ قسم کبریت احمر سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔ یہ لوگ علمائے ربانی اور کتاب وسنت کے شیدائی ہیں ۔

٭دوسری صنف :

ان کی مخاطب کی دواء کی مانند ضرورت رہتی ہے ، بوقت بیماری کے استعمال کی ضرورت ہوتی اور تندرستی میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی ، یہ لوگ کسب و معاش والےہیں ۔

٭تیسری صنف:

ان کی مخاطب بیماری کی مانند ہے یہ مختلف نوع کے ہوتے ہیں اور قوت اورضعف میں ان کے مراتب مختلف ہوتے ہیں ، اس میں سے بعض دین اور دنیا دونوں کا نقصان کرتے ہیں بعض صرف دین اور بعض صرف دنیا کے خسارے کا باعث بنتے ہیں اور تمہارا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں ۔

٭چوتھی صنف :

ان کی مخاطب زہر قاتل ہے یہ قسم لوگوں میں بکثرت پائی جاتی ہے ، یہ اہل بدعت و ضلال ہیں یہ لوگ کتاب وسنت سے روکتے ہیں ان کی دعوت کتاب وسنت کے خلاف ہوتی ہے اور یہ سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت بناتے ہیں ، معروف کو منکر اور منکر کو معروف بناتے ہیں !!۔

یہ لوگ توحید الہٰی بیان کرنے والوں کو اولیاء کے گستاخ کہتے اور اتباع سنت کی دعوت دینے والوں کی ائمہ کے گستاخ سمجھتے ہیں۔ اگر تم اللہ کی وہ صفتیں جو اللہ اور رسول نے بیان فرمائی ہیں ، غلو و تقصر کے بغیر بیان کریں ۔

’’کہتے ہیں تم مشبہہ ہو ‘‘ اگر تم اس چیز کا حکم دو جس  کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے اور منع  کرو اس چیز سے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے تو کہتے ہیں تم فتنہ باز ہو اور اگر خلاف سنت چیزوں کو چھوڑ کر صرف سنت کی تابعداری کرو تو کہتے ہیں یہ بدعتی اور گمراہ ہے اور اگر دنیائے دنی سے کٹ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں یہ دھوکہ باز ہے ۔

اور اگر اپنا طریقہ چھوڑ کر ان کی ہاں میں ہاں ملاؤ تو عند اللہ خاسر اور ان کے نزدیک پھر بھی منافق ٹھہرو۔

ان لوگوں سے بچنا چاہیے اور ان کے غیظ و غضب کی پرواہ کئےبغیر اللہ اور اس کے رسول کی رضاجوئی ہی ہوشمندی ہے ۔ ان کی مذمت و بغض کی پرواہ نہ کرنا اور ان کے ساتھ نو ک جھونک میں مشغول نہ ہونا ہی کمال ہے ، تو جو ان حروز طیبہ کو اختیار کرے گا وہ شیطان کے دروازے بند کر کے جنت کے دروازے اپنے کھول لے گا اور جہنم کے دروازے بند کرے گا ، اور قریب ہے کہ مرتے وقت اسے یہ علاج اچھا لگے ۔ واللہ اعلم

تفصیل کےلیے رجوع کریں ۔ بدائع الفوائد للامام ابن قیم (2/ 267۔272)۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص34

محدث فتویٰ

تبصرے