سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) مسجد میں نقش و نگار کرنا

  • 11973
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 999

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مساجد میں نقش ونگار کرناجائز ہے یا نہیں ؟قرآن وحدیث کے مطابق جو اب دیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ مساجد میں اس طرح کی میناکاری اورنقش ونگار ی جونماز پڑھتے وقت نمازی کے لئے خلل اندازی کاباعث ہو،درست نہیں ہے ۔رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی زیب وزینت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھا، چنانچہ آپ نے ایک دفعہ منقش چادر میں نماز ادا کی تو بعد میں فرمایا: ’’اسے واپس کردو کیونکہ اس کے نقش ونگار کی وجہ سے میری توجہ ہٹ جانے کااندیشہ ہے۔ ‘‘  [صحیح بخاری، الصلوٰۃ: ۳۷۴]

                اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جونماز ی کے لئے دوران نماز توجہ ہٹانے کاباعث بنے مکروہ اورناپسندیدہ ہے، جیسا کہ نقش ونگار وغیرہ۔   [فتح الباری، ص:۴۸۳ج۱]

                مساجد کی زیب وزینت اورنقش و نگاری کی مذمت کے متعلق کئی ایک احادیث میں صراحت کے ساتھ اسے علامات قیامت قرار دیتے  ہوئے اس سے آپ نے منع فرمایا ہے، خاص طور پر جب ایسی چیزیں فخر ومباہات کاذریعہ بن جائیں۔چنانچہ حدیث میں ہے: ’’مجھے اس بات کاحکم نہیں دیا گیا کہ مساجد کوچوناگچ کروں یاانہیں نقش ونگار سے آراستہ کروں۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’تم اپنی مساجد کویہودونصاریٰ کی طرح خوب میناکاری سے آراستہ کروگے۔‘‘     [صحیح ابن حبان:۴/۷۰]

                ایک اورحدیث میں ہے کہ لوگوں پر ایسا وقت ضرور آئے گا کہ ’’وہ اپنی مساجد کوفخر ومباہات کاذریعہ بنائیں گے ،نماز اور رشدوہدایت کے سامان سے اس کی تعمیر نہیں کریں گے۔‘‘      [صحیح بخاری تعلیقاً]

                رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کایہ بھی فرمان ہے کہ ’’جوقوم بدعملی کاشکارہوتی ہے وہ مساجد کونقش ونگاری اوربیل بوٹوں سے مزین کرناشروع کردیتی ہے ۔‘‘    [ابن ماجہ: کتاب المساجد ]

           یہ روایت اگرچہ سندًا ضعیف ہے، تاہم تائید کے لئے اسے پیش کیاجاسکتا ہے ۔مسجد کومضبوط اورخوبصورت توضرور ہونا چاہیے لیکن نقش ونگار اورمیناکاری سے دور رکھنا چاہیے ۔خاص طورپر محراب والی دیوار پربیل بوٹے یاشیشہ لگانا جس سے نمازی کی توجہ دوسری طرف لگ جائے سخت معیوب ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:78

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ