السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم اپنی کالونی میں ۱۵۔۲۰اہل حدیث ہیں اورہمارے ہاں کوئی مسجد اہل حدیث نہیں ہے۔ پہلے ہم بریلوی حضرات کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے، تین سال قبل انہوں نے ہمیں نماز پڑھنے سے روک دیا ،اس کے بعد دیوبند حضرات کی مسجد تعمیر ہوئی توہم ان کی مسجد میں نماز اداکرتے رہے اوردھیمی آواز سے آمین کہتے رہے ،اس کے باوجود بھی انہیں تکلیف تھی ،ایک دن ہم نے آمین کہی توامام مسجد نے نماز توڑ کرمقتدیوں کی طرف منہ کرکے کہا’’خنزیرو!تمہیں کیا تکلیف ہے ‘‘اس وقت سے اہل حدیث الگ نماز پڑھتے ہیں، ہمارے ہاں اہل حدیث کاایک مدرسہ ہے جوزکوٰۃ وخیرا ت سے تعمیرکیاگیا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ا س مدرسہ میں نماز پڑھ سکتے ہیں اورسپیکر میں اذان دے سکتے ہیں یامدرسہ کی دوسری منزل پرمسجد تعمیر کرسکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دیوبندی حضرات کی طرف سے اہل حدیث حضرات کو کہاجاتا ہے کہ یہ لوگ بہت متعصب ہیں اور رواداری سےکام نہیں لیتے ہیں۔ہم نے پورا سوال اس لئے درج کیا ہے تا کہ دیو بندی حضرات کا اہل حدیث لوگوں کےمتعلق رویہ سامنے آجائے۔کیا وزیر آباد کی جماعت مسجد کی تعمیر میں فعال نہیں ہے۔کیا مسلک کی حمایت میں بے چارے اہل حدیث کا تعاون نہیں کیا جاسکتا،جنہیں ایک سنت پر عمل کرنے کی پاداش میں خنزیر تک کہا جاتا ہے۔ مرکز اہل حدیث کو بھی ایسے لوگوں کے ساتھ دست تعاون بڑھانا چاہیے۔ان تمہیدی گزارشات کے بعد سوالات کا جواب حسب ذیل ہے:
جب زکوٰۃ حقدار کو پہنچ جائے تو اس کی زکوٰۃ والی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور جسے زکوٰۃ دی گئی ہے،وہ اسے جہاں چاہے استعمال کرسکتا ہے،چنانچہ امام بخاریؒ نےایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:‘‘جب صدقہ کی حیثیت تبدیل ہوجائے’’اس کےتحت انہوں نے دواحادیث ذکر کی ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب