سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) رہائشی پلاٹ کی جگہ میں مسجد تعمیر کروانا

  • 11971
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 788

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی پرائیویٹ پارٹی نے کچھ زرعی رقبہ خریدا تاکہ اسے رہائشی پلاٹوں کی صورت میں آگے فروخت کیا جائے ،اس میں بچوں کے کھیلنے کے لئے ایک پارک بھی چھوڑاگیا، اب وہاں آبادی ہوچکی ہے۔ اہل محلہ نے مذکورہ پارک کے ایک کونہ میں (جو کہ ایک تکون سی بننے کی وجہ سے پارک کے استعما ل میں نہ تھا) ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کی ہے جس کی چار دیواری تقریباًمکمل ہوچکی ہے اور معاملہ چھت تک پہنچ چکاہے، اب کچھ حضرات کاکہنا ہے کہ اس جگہ مسجدنہیں بن سکتی، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ رائج الوقت قانون کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اگر کوئی پارٹی کسی زرعی یابے آباد زمین کو رہائشی پلاٹوں کی صورت میں فروخت کرناچاہتی ہے توسب سے پہلے مجوزہ کالونی کانقشہ متعلقہ محکمہ کوپیش کردے۔ اس نقشہ میں سڑکوں،سکول، پارک اورمسجد کاہوناضروری ہے ۔کیونکہ ان تمام چیزوں کاتعلق مشترکہ مفاد عامہ سے ہے۔

  صورت مسؤلہ میں سڑکوں اورپارک کے لئے توجگہ چھوڑدی گئی ہے لیکن مسجد کے لئے جگہ نہ چھوڑکر مالکان نے مذہب کے ساتھ اپنی  ’’وابستگی‘‘ کوظاہر کیاہے ۔رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے توانہوں نے اپنی رہائش سے پہلے مسجد بنانے کوترجیح دی تاکہ امت کویہ سبق دیا جائے کہ رہائشی منصوبے میں مسجد کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نام نہاد مسلمان چند ٹکوں کے لالچ میں اس اہم معاملہ کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔مسجد بھی ایک مشترکہ مفاد ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی ،اب چونکہ وہاں اہل محلہ کو خیال آیا ہے کہ یہاں مسجد کاہوناضروری ہے تومجوزہ جگہ پرمسجد تعمیر ہوسکتی ہے کیونکہ وہ جگہ پارک کے استعمال میں نہیں آسکتی ،لیکن پیش بندی کے طورپر ایک بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ وہاں مسجد توایک ہی تعمیر ہوگی ،موجودہ مذہبی تکدر کے پیش نظر اسے اکھاڑانہ بنایا جائے اورنہ ہی اسے کسی کے لئے ذریعہ معاش بننے دیا جائے بلکہ اہل محلہ آپس میں مل جل کرمسجد کی آبادی کے لئے کسی ایسے معقول مزاج امام کاانتخاب کریں جوسب کے لئے قابل قبول ہواوراسے شروع ہی سے مذہبی چھیڑ چھاڑ سے اجتناب کرنے کی تلقین کردی جائے۔[و اللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:77

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ