السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عدم نقل عدم حکم کی دلیل ہے ؟ کیا یہ شرعی دلیل ہے ؟ اگر ہے تو کیا دلیل ہے ؟ ۔ (14/3/ 1514ھ ) بروز اتوار۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جان لو! الله مجھ پر اور آپ پررحم فرمائے ۔ تمام بدعات کی تردید کےلیے شریعت مطہرہ اصول اور جلیل القدر قاعدہ ہے ۔ مبتدعین مختلف قسم کی بدعات گھڑتے ہیں ۔ اگر کوئی ان بدعات کی تردید کرتا ہے تووہ جواب میں کہتےہیں رسول اللہ ﷺ سے اس کی تردید ثابت نہیں اور نہ ہی انہوں نے منع فرمایا ہے ۔
یہ جاہل نہیں جانتا کہ کثرت دواعی کے باوجود نقلی دلیل کا نہ ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل ہے ، اس قاعدے کا تعلق عبادات سے ہے کیونکہ عبادات تمام توقیفی ہیں باقی تمام اشیاء چونکہ اصل اباحت ہے اس لیے منع کرنے کے لیے شرعی نہی کی ضرورت ہے پھر ہم رکیں گے ۔ او راس قاعدہ جلیلہ کی دلیل قرآن و سنت اجماع صحابہ وعلماء ر بانیین ہے۔
قرآن : اللہ تعالیٰ کا قول ہے :
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهو...٧﴾...سورة الحشر
’’جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ۔‘‘
سنت : دلائل سنت کا ضبط وحصر مشکل ہے البتہ بعض صحیح احادیث کی طرف جو معروف ہیں ہم اشارہ کرتے ہیں ۔
٭پہلی حدیث :
«من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد»
’’کسی نے ایسا کوئی عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ، وہ مردود ہے ۔‘‘
صحیح مسلم (2/ 77) ریاض الصالحین(118حدیث نمبر 169) احمد ( 6/ 146، 180۔256) صحیح بخاری (2/ 1092)۔
لفظ امر یہاں عام ہے جو فعل کو بھی شامل ہے ۔
امام نووی فرماتے ہیں :«یہ حدیث حفظ کے قابل اور اسے منکرات کے ایطال کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔ اور اس سے استدلال عام ہونا چاہیے » ۔ ابن رجب کی جامع العلوم و الحکم (ص: 52) میں ہے :امر سے یہاں آپ ﷺ کا دین اورشریعت ہے ۔ ضیاء النور ۔ (ص:125) اور اسی طرح نیل الاوطار میں اس کا مفصل ذکر ہے ۔
٭دوسری حدیث :
بخاری ومسلم نے ابن عمر سے روایت کیا ہے :
«لم أر النبي صلى الله عليه و سلم يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين» مشکوة (1/ 227)۔
’’میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کے صرف دو رکن کا استلام کرتے دیکھا ہے جو یمن کی سمت ہیں۔‘‘
٭تیسری حدیث :
مہاجر مکی روایت کرتے ہیں کہ جابر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بیت اللہ کو دیکھ کر دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہوں نے کہا ، ہم نے رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا ہم ایسا نہیں کیا کرتے تھے ۔ (ترمذی ، ابو داؤد او راسی طرح مشکوٰۃ (1/ 227) میں )
٭چوتھی حدیث :
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جن دنوں اہل یمامہ کا قتل ہوا انہیں دنوں کی بات ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو میرے پاس مجھے بلانے کے لئے بھیجا میں ان کے پاس حاضر ہوا اور وہاں پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے قاریوں کی شہادت کا حادثہ یمامہ کے دن گرم ہو گیا (یعنی یمامہ کی لڑائی میں بہت سے قاری شہید ہو گئے ہیں) مجھے خدشہ ہے کہ اگر اسی کثرت سے مختلف جنگوں میں قاریوں کی شہادت ہوتی رہی تو قرآن کا بہت بڑا حصہ جاتا رہے گا لہٰذا مجھے اسی میں بہتری اور مصلحت نظر آتی ہے کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دے دیں (حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اس کام کس طرح کرو گے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا۔ الحدیث اور ا س میں یہ بھی ہے ’’میں نے کہا تم وہ کام کس طرح کرنا چاہتے ہو جو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا ‘‘۔ (بخاری (2/ 745) مشکوٰۃ (1/ 193)
یہ حدیث قاعدہ مذکورہ کی واضح ترین دلیل ہے ۔
٭پانچویں حدیث :
’’ابووائل سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں شیبہ کے ساتھ کرسی پر کعبہ میں بیٹھا تو شیبہ نے کہا، اس جگہ پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ارادہ کیا کہ کوئی زرد یا سفید چیز نہ چھوڑوں، مگر یہ کہ ان کو تقسیم کردوں، میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں ساتھیوں نے تو ایسا نہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں تو انہیں دونوں آدمیوں کی اقتدا کرتا ہوں۔‘‘۔ (صحیح بخاری (2/ 1080)
٭چھٹی حدیث :
ابو عبد اللہ ( امام بخاری ) نے کہا : ’’رسول اللہ ﷺ نےفرض وضوء ایک ایک بار بیان کیا ، اور دو دو بار اور تین تین بار بھی کیا ، تین بار سے زائد نہیں ۔ او راہل عمل نے فعل نبی سے تجاوز کر کے اسراف کرنے کو مکروہ سمجھا ہے ‘‘۔ صحیح بخاری (1/ 25)
٭ساتویں حدیث :
مسلم او راسی طرح مشکوٰۃ (1/125) میں جابر بن سمرہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ عیدین کی نماز کئی بار بغیر اذان و اقامت کے پڑھی ۔
٭آٹھویں حدیث :
ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے عید الفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھائی اور اسی سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھی ۔ بخاری و مسلم اور مشکوٰۃ (1/ 125) اسی طرح عبد الرزاق نے (3/ 275) میں روایت کیا ہے ۔
امام عبد الرزاق ابو اسحق سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں علقمہ سے عید کے دن امام کے نکلنے سے پہلے نماز پڑھنے کےبارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ، ’’رسول اللہ ﷺ کے صحابہ عید کے نماز سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے ۔ سائل نے کہا اگر میں نماز پڑھ لوں تو آپ کی کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا ، ’’ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کے صحابہ کا عمل بتا دیا آگے آپ خوب جانتے ہیں ۔ مصنف عبد الرزاق (3/ 273)
٭نویں حدیث :
امام عبد الرزاق نے ثوری سے وہ ابن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک شخص کوطلوع فجر کے بعد نوافل پڑھتے دیکھا تو اسے منع کر دیا تو وہ کہنے لگا اے ابو محمد! کیا اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے پڑ مجھے عذاب دے گا ، تو انہوں نے کہا ، نماز پر نہیں بلکہ سنت کی مخالفت پر عذاب دے گا ۔ (مصنف عبد الرزاق (3/ 52رقم 4755)
٭دسویں حدیث :
بخاری (1/ 241) ،(1/ 57) میں عمرو بن دینار سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ، عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ ہم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ جس نے عمرہ میں خانہ کعبہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کا طواف نہیں کیا، کیا اپنی بیوی سے صحبت کر سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے تو خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور صفا اور مروہ کے درمیان سات بار طواف کیا اور تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے اور ہم لوگوں نے جابر بن عبداللہ سے پوچھا تو کہا کہ جب تک صفا اور مروہ کا طواف نہ کرلے اپنی بیوی کے پاس نہ جائے۔الحدیث ۔ مسلم (1/ 4۔5) احمد (2/ 10)
امام نووی فرماتے ہیں : صفا مروہ کی سعی سے پہلے آپﷺ حلال نہیں ہوتے تھے ۔ تو آپ کی اتباع واجب ہے ۔
٭گیارہویں حدیث :
مسلم اور اسی طرح مشکوٰۃ (1/ 124) میں عمارۃ بن رویبہ سے روایت ہے انہوں نے بشر بنب مروان کو خطبہ میں دونوں ہاتھ اٹھاتے دیکھا ، تو کہا اللہ ان دونوں ہاتھوٹ کو برباد کرے اور انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس سے زیادہ کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔
٭بارہویں حدیث :
مسلم (1/ 243) میں عبد الرحمن بن یزید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عثمان نے ہمیں منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی پھر عبد اللہ بن مسعود سے اس کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے ’’إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ‘‘ پڑھا اور کہا ، ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت پڑھی ہیں ۔
ابوبکر صدیق کے ساتھ دو رکعت پڑھی ہیں ، عمر کے ساتھ دو رکعت پڑھی ہیں ، کاش کہ ان چار رکعتوں میں سے دو رکعات مقبولہ ہی میرے حصے میں آتیں انہوں نے سنت کی مخالفت کےلیے عدم فعل کو دلیل بتایا۔
٭تیرہویں حدیث :
بخاری (1/ 148) اور احمد (3/ 446) میں عامر بن ربیعہ سے روایت ہے وہ کہتےہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کوسواری پر اشارے سے نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا ،سواری جس طرف بھی منہ کرتی اور رسول اللہ ﷺ فرض نمازوں میں ایسا نہیں کرتے تھے ۔
فی الوقت یہی دلائل میرے ذہن میں مستحضر تھے ۔ جب کہ اس قاعدہ جلیلہ کے دلائل بہت زیادہ ہیں ۔
اب ہم اہل علم وعرفان کی کتب سے دلائل اور مؤیدات ذکر کرتے ہیں
٭قسطلانی (7/ 335) میں ہے : ’’آپﷺ کا ترک ہمارے حق میں سنت ہے ‘‘ یعنی جو آپ نے ترک کیا تو اس کا ترک کرنا ہمارے لیے سنت ہے اگرچہ مطالبہ پر ہمارے پاس اور کوئی دلیل نہ ہو جس طرح کہ آپ کا فعل سنت ہے ہمارے لئے اس میں آپ کی اتباع مسنون ہے بشرطیکہ اس کا آپ کےلیے خاص ہونے کی دلیل نہ ہو ۔
٭مرقاۃ:(1/ ) میں ہے ’’متابعت جس طرح فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی ہوتی ہے تو جو کوئی ایسا کام مواظبت کے ساتھ کرتا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ مبتدع ہے ۔
٭لمعات : لعبد الحق الدھلوی (1/ 36) میں ہے ، ’’اتباع جس طرح فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے ‘‘۔
٭هدايه: (1/ 147) میں ہے ، ’’دن میں ایک نیت سے چار رکعات سے زائد مکروہ ہے اور کراہت کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اس سے زائد نہیں پڑھی ۔ اگر کراہت نہ ہوتی تو جواز کی تعلیم کےلئے ضرور زائد کرتے ۔
اسی طرح ہدایہ (1/ 86) باب اذان سے قبل مذکور ہے ’’طلوع فجر کے بعد دورکعت سنت فجر کے علاوہ نفل نہ پڑھے کیونکہ نبی ﷺ باوجود حرص نماز کے اس سے زائد نہیں پڑھیں ‘‘۔
اسی طرح (1/ 173) باب العیدین میں ہے :
’’اور نماز عید سے پہلے عیدگاہ میں نفل نہ پڑھے کیونکہ نبی ﷺ نے باوجود حرص نماز کے نہیں پڑھے ‘‘۔
اسی طرح (1/ 176) میں ہے: ’’صلوٰۃ کسوف میں خطبہ نہیں کیونکہ یہ منقول نہیں ‘‘۔
میں کہتا ہوں : یہ صاحب ہدایہ کی اخطاء میں سے ہے ، ان کی اخطاء بہت ہیں ۔ لیکن یہ بطور الزام ہم نے ذکر کی ۔
٭اسی طرح (1/ 177) میں ہے :
’’اور قوم (استسقاء میں ) اپنی چادریں نہ پلٹیں کیونکہ یہ منقول نہیں کہ آپﷺ نے انہیں حکم دیا ہو ‘‘۔
٭اور امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہﷺ جب قبض کئے گئے تو یہ دین کامل ہو چکا تھا ۔ اس لیے رسول اللہﷺ کے آثار کی اتباع کرنی چاہیے ، رائے کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے ‘‘۔
اسی طرح اعتصام للشاطبی (1/ 77) میں ہے ۔
٭اور المواہب اللدنیہ (7/ 278) میں ہے :
’’آ پﷺ کی تابعداری آپ کے تمام اقوال و افعال میں وجوداً و وعدما ً ثابت ہوئی ۔ ہاں اگر دلیل کسی چیز کو آپ کے لیے خاص کرتی ہو تو بموجب منطوق آیات آپ کی اطاعت کرتے ہوئے اس کو آپ کےلیے ہی خاص کیا جائے گا ‘‘۔
٭مدخل: میں ہے : ’’آپ کے فعل پر زیادت بدعت ہے ۔ اور (3/ 38) میں ہے کہ اس بدعت کا کم از کم کراہت کا ہے ‘‘۔
٭ رد المختار ، (1/ 558) میں ہے : ’’آپ ﷺ کا عدم فعل کراہت پر دلالت کرتا ہے ، اور کہا ہے ، ’’جس چیز کی مشروعیت کی دلیل نہ ملے تو اس کا کرنا حلال نہیں بلکہ مکروہ ہے ‘‘۔
٭المولوی شرح الحسامی: میں بحث بیان تبدیل میں ہے ، ’’حکم شرعی سوائے دلیل شرعی کے ثابت نہیں ہوتا ‘‘۔
٭فتح القدیر (2/ 41) باب الاستسقاء میں ہے : ’’مدارک شرعی (شرعی دلائل ) کا نہ ہونا حکم شرعی کی نفی کےلیے کافی ہے‘‘۔
اور اسی طرح (2/ 41) میں ہے : ’’اس (ذکر کا عدم جہر ) میں شرعی مورد پر ہی بند رہنا چاہیے‘‘۔
٭ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واجعل لقلبك هجرتين ولا تنم
فهما على كل امرئ فرضان
فالهجرة الأولى إلى الرحمن بالـ
إخلاص في سر وفي إعلان
فالقصد وجه الله بالأقوال وال
أعمال والطاعات والشكران
فبذاك ينجو العبد من إشراكه
ويصير حقا عابد الرحمن
والهجرة الأخرى الى المبعوث بالـ
حق المبين وواضح البرهان
فيدور مع قول الرسول وفعله
نفيا وإثباتا بلا روغان
ويحكم الوحي المبين على الذي
قال الشيوخ فعنده حكمان
لا يحكمان بباطل أبدا وكل
العدل قد جاءت به الحكمان
وهما كتاب الله أعدل حاكم
فيه الشفا وهداية الحيران
والحاكم الثاني كلام رسوله
ما ثم غيرهما لذي إيمان
ذونية ابن القيم ص(20)
1۔ سونا مت او راپنے دل کے لیے دو ہجرتیں اختیار کر اور یہ دونوں ہر شخص پر فرض ہیں ۔
2۔ پہلی ہجرت پوشیدہ اور علانیہ طور پر خلوص کے ساتھ رحمن کی طرف ہے ۔
3۔ اقوال و اعمال ، طاعات و شکر کےساتھ اللہ کی رضا مقصود ہو ۔
4۔اس طرح بندہ شرک سے نجات حاصل کر کے رحمٰن کا سچ مچ بندہ بن جائے گا ۔
5۔دوسری ہجرت رسول مبعوث کی طرف ہے حق مبین اور واضح دلیل کے ساتھ ۔
6۔پس رسول اللہﷺ کے قول و فعل کے ساتھ نفی و اثبات میں بغیر کجروی کے گھومتا رہے ۔
7۔ اور وحی مبین علماء اور بزرگوں کے اقوال پر حاکم ہے پس اس کے پاس فیصلہ کن چیزیں ( قرآن وسنت ) ہوئیں ۔
8۔ان دونوں (قرآن وسنت ) کا فیصلہ باطل نہیں ہوسکتا اور حق سارے کا سارا یہ دوچیزیں ہی لاتی ہیں۔
9۔ اور ان دونوں میں سے ایک کتاب اللہ ہے جو حاکم عادل ہے اور اس میں شفاء اور حیران کےلیے رہنمائی ہے ۔
10۔ اور دوسرا حاکم اللہ کے رسول کا کلام ہے ایمان والے کے لیے ان دونوں کے علاوہ یہاں اور کچھ نہیں ۔
٭امام ابن کثیر رحمہ اللہ : اپنی تفسیر (4/106) میں فرماتے ہیں :
’’جو قول و فعل صحابہ سے ثابت نہ ہو اسے اہل سنت والجماعت بدعت کہتے ہیں کیونکہ اگر بھلائی کا کام ہوتاتو وہ ضرور ہم سے پہلے کر گزرتے کیونکہ وہ خیر کی کسی بھی خصلت کی طرف مبادرت کئے بغیر نہیں رہے ‘‘۔
٭الحلبی الکبیر شرح المنیة (371) بحث اذان میں ذکر ہے ،
’’عید اور کسوف کے لیے عدم نقل کی وجہ سے اذان نہ کہی جائے ‘‘۔
٭عناية: (1/ 57) میں ہے : ’’نبی ﷺ سے نقل کا نہ ہونا آپ ﷺ کے عدم فعل پر دلالت کرتا ہے ‘‘۔
اسی طرح مائة مسائل ص(28،75، 141) میں بھی ہے ۔
٭فتاویٰ حدیثیة لابن حجر الهيثمى (ص206) میں ہے :
’’ اسی طرح تقاضے کےباوجود جوآپ ترک فرمائیں تو آپ کا ترک سنت ہے ‘‘۔
٭ابداع(ص19) میں ہے : ’’جان لو! سنت رسول جیسے فعل میں ہوتی ہے اس طرح ترک میں بھی ہے ۔ تو جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے فعل میں ہمیں آپ کی اتباع کا مکلف بنایا ہے جس سے تقرب الہٰی حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ آپﷺ کے لیے خاص نہ ہو اس طرح ترک میں بھی ہم آپ کی اتباع کا مطالبہ کیا ہے تو ترک بھی سنت ہوا ۔ تو جس طرح آپﷺ نے جو فعل کیا ہے اس کے ترک سے ہم تقرب حاصل نہیں کرسکتے اسی طرح جوآپ نے ترک فرمایا ہے اس کے کرنے سے بھی ہم تقرب حاصل نہیں کر سکتے ۔ تو آپ کے چھوڑے ہوئے کا کرنے والا ایسے ہے جیسے آپ کے کئے ہوئے کا تارک ، دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔
٭صاحب مجالس الابرار ، -1/ 128۔129) میں رقم طراز ہے :
’’علماء کہتے ہیں : «آپﷺ نے جو کچھ کیا اس کا ترک بھی سنت ہے بشرطیکہ مقتضی موجود ہو ۔ اور مانع معدوم ہو ۔ تو جب رسول اللہﷺ نے جمعہ میں اذان کا حکم فرمایا اور عیدین میں نہیں ، تو عیدین میں اذان کا ترک کرناسنت ہوا ، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ عیدین میں اذان کا اضافہ کرے اور کہے کہ یہ تو عمل کا اضافہ ہے جو نقصان دہ نہیں ۔ اسے کہا جائے گا ، کہ رسولوں کے ادیان اور شریعتیں اسی طرح تغیر کا شکار ہوئیں اگر دین میں اضافہ جائز ہوتا تو پھر فجر کی نماز چار رکعت اور ظہر کی نماز چھ رکعات جائز ہوتی۔ اور کہہ دیا جاتا کہ یہ عمل صالح کی زیادت ہے جو مضر نہیں ۔
اور کسی کے لیے اس طرح کہنا جائز نہیں ، کیونکہ مبتدع اپنی بدعت کی جو مصلحتیں اور فضیلتیں بیان کرتا ہے او ریہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی موجود ہوں اور اس کے باوجود آپ نے نہ کیا ہو تو ایسےفعل کے ترک کا سنت ہونا ہر عموم و قیاس پر مقدم ہے ۔ جوایسا عمل کرتا ہو اور اس کا عقیدہ ہو کہ یہ دین میں مشروع ہے تو یہ فاسق اور مبتدع ہے کیونکہ فسق بدعۃ سے عام ہے ہر بدعت فسق ہے اور ہر فسق ضروری نہیں کہ بدعت ہو اس طرح بدعت فسق سے شر میں بڑھ کر ہے جو بدعت کا ارتکاب کرتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی تنقیص کر رہا ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنے زعم میں بدعت پر عمل کرنا آپﷺ کی تعظیم سمجھتا ہے ‘‘۔
٭صاحب المجمع نے اپنی شرح میں کہا ہے : ’’ایک آدمی نے جبانہ میں نماز عید سے پہلے نفل پڑھنا چاہا تو علی نے اسے منع کر دیا ۔ وہ آدمی کہنے لگا ، اے امیر المؤمنین ! میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھےنماز پڑھنے پر عذاب نہیں دے گا تو علی نے فرمایا، ’’جان لے یقیناً اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل پر ثواب نہیں دے گا جب تک رسول اللہ ﷺ نے نہ کیا ہو اور اس کی ترغیب نہ دی ہو تو تیری نماز عبث ہوئی اور عبث حرام ہے ۔ شاید اللہ تعالیٰ تجھے اپنے رسول کی مخالفت کی وجہ سے عذاب دے دے ‘‘۔
٭صاحب ہدایہ کہتے ہیں : ’’(بعد طلوع فجر ) صبح کی دو سنتوں کے علاوہ نوافل نہیں پڑھنے چاہئیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے حرص کے باوجود اس سے زیادہ نہیں پڑھی‘‘۔
غور کریں کیسے رسول اللہ ﷺ کے عدم فعل کو باب عبادات میں کراہت پر دلیل بنایا ۔ ( مجالس الابرار ص (129)۔
صاحب مدخل نےتسحیر و تذکار اور دیگر بدعات کے بدعت ہونے پر استدلال کیا ہے کہ ’’یہ اسلاف نے نہیں کیا ہے ‘‘۔
مدخل ) 2/ 117)
اور صاحب البحر نے (2/ 160) میں عید گاہ میں نوافل کی کراہیت کی علت عدم نقل کو ہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کراہت کی دلیل کتب ستہ میں ابن عباس سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی ﷺ نکلے اور انہیں نماز عید پڑھائی اور اس سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھی اور بعد نماز عید نفل کی کراہیت محمول ہے جب وہ عید گاہ میں ہو کیونکہ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ عید کی نماز سے پہلے کو ئی نماز نہیں پڑھتے تھے جب گھر واپس لوٹتے تو دو رکعت پڑھتے تھے اور اس کی سند صحیح ہے ۔
٭امام حاکم مستدرک میں ابن عمررضی اللہ عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ عید کے دن عیدگاہ کی طرف نکلے اور نماز عید سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں پڑھی اور ذکر کیا کہ نبی ﷺ نے یہی کیا تھا ۔ حاکم اور ذہبی نے تلخیص میں اسے صحیح کہا ہے ۔
٭شیخ محمد اسماعیل انصاری نے القول الفصل (ص:6) میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ’’جسے رسول اللہ ﷺ ترک فرمائیں اس کا ترک کرنا سنت ہے ‘‘۔ اس قاعدہ کے دلائل بکثرت ہیں لیکن قاری کی سمجھداری پر اعتماد کرتے ہیں بعض بیان کردئیے ہیں ۔ اور اسی قاعدہ پر بطور تفریع چند بدعات کی نشانداہی کرتے ہیں جن کے جواز کےلیے مبتدعین استدلال کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا ہے ۔
(1)۔:نماز کے بعد اجتماعی دعا۔
(2):۔قبرستان میں فدیوں کی تقسیم اور اسے متعدد لوگوں کا ہاتھوں میں پھیرنا ۔
(3):۔اور نماز جنازہ کے بعد دعا ۔
(4):۔اور جنازے کے آگے آگے ذکر کرنا ۔
(5):۔بعض متعین مقامات پر ذکر بالجہر ۔
(6) :۔سحری کے وقت ، منبر پر اور مساجد کے دروازوں پر نماز کےلیے بلانا ۔
(7) :۔بعض مقرر شدہ نمازیں جیسے قضاء عمری اور نماز زغائب وغیرہ۔
(8) :۔بعض شب وروز کو عبادات کے لیے خاص کرنا جیسے جمعہ کی رات سورۃ ملک کی قراءت اور جمعہ کے رات صدقہ کرنا ۔
(9) :۔عید میلاد اور میلاد کےنام پر محفلیں ، عرس اور قوالی ، اور اس طرح اور بہت ساری بدعات جو ہمارے علاقوں میں عام ہیں ، اور کتنے ہی لوگ ان بدعات کی طرف دعوت دیتے ہیں اور واہی شبہات اور من گھڑت دلائل کے ساتھ عام مسلمانوں کےلیے اسے مزین کرتے ہیں ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب