سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) اراضی زبانی طور پر مسجد کو وقف کرنا

  • 11968
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 2180

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے اپنی زندگی میں تقریباً دوکنال قطعہ اراضی زبانی طورپر مسجد کے لئے وقف کی لیکن قانونی طورپر وقف نامہ لکھنے سے پہلے وہ فوت ہوگیا۔ اس کے بیٹے نے وہ موقوفہ زمین کسی دوسرے شخص کوفروخت کردی ،اس کی قیمت وصول کرکے خریدار کے نام رجسٹری کرادی ،اب مسجد کی انتظامیہ اورخریدار کا باہمی تنازعہ پیدا ہوا ،مسجد والے کہتے ہیں کہ فروخت کردہ زمین مسجد کے لئے وقف ہے، جبکہ خریدار کادعویٰ ہے کہ میں نے اسے رقم صرف کرکے خریدا ہے اورمیرے نام رجسٹری ہے ۔پنچائتی فیصلہ یہ ہوا کہ خریدار ،مسجد کوموجود ہ زمین سے نومرلے دے گااوروضو خانہ، باتھ وغیرہ بھی تعمیر کرادے گا ،فریقین اس پر راضی ہوگئے اوراس پرعمل درآمد بھی کرادیاگیا ،اب مسجد کی انتظامیہ کے بعض افراد پھر مطالبہ کررہے ہیں کہ مسجد کودوکنال قطعہ اراضی ملناچاہیے جبکہ خریدار کہتا ہے کہ یہ سراسرزیادتی اورحق تلفی ہے۔ وضاحت فرمائیں کہ اس تنازعہ میں زیادتی کامرتکب کون اورحق بجانب کون ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ کسی قیمتی چیز کو  اللہ  تعالی کی ملک میں مقید کردینا اوراس کے منافع کودوسروں پر نیک نیتی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے صدقہ کردینے کاصاف اورصریح اظہار وقف کہلاتا ہے۔ وقف کے لئے شرعی طورپر کسی تحریری دستاویز کی ضرورت نہیں ہے ، کسی جائیداد کے بطوروقف استعما ل سے بھی اس کا وقف ہونا ثابت کیا جاسکتاہے، البتہ ازروئے قانون وقف کا تحریر ی ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے وقف کے جواز کے لئے حسب ذیل شرائط کا ہونا لازمی ہے :

٭  وقف کندہ عاقل ،بالغ اورآزاد ہو۔

٭  وقف کے وقت شئے موقوفہ کامالک ہو۔

٭  وقف کردہ چیز ہرقسم کے بارکفالت سے مبرّا ہو۔

٭  وقف کردہ چیز کوموقوف علیہ کے حوالے کرنے پرقادر ہو ۔

٭  وقف کااعلان نیک نیتی اورحقیقی ارادے کے ساتھ ہو،اس میں کسی وارث کونقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔

                جب ان شرائط کے مطابق وقف مکمل ہوجائے تو وقف شدہ چیز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے نہ توفروخت کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی کسی اور کوہبہ یاوراثت میں دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حدیث رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔   [صحیح بخاری: ۲۷۳۷]

                اس طرح وقف کے بعد اگرکوئی وارث وقف شدہ چیز کواپنے ذاتی مقاصد کے لئے فروخت کرتا ہے تواس فروختگی کاکوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ حدیث کے مطابق ظالمانہ تصرف ہے ،جسے شریعت نے غیر معتبر ٹھہرایا ہے ۔    [صحیح بخاری ،المزارع :۲۳۳۵]

                حد یث میں اس قسم کے تصرف کوعرق ظالم سے تعبیر کیا گیا ہے جس کی وضاحت راوی حدیث حضرت ہشام نے بایں الفاظ کی ہے کہ آدمی کسی دوسرے کی زمین میں ناجائز تصرف کر کے اس کا مالک بن بیٹھے۔امام مالک رحمہ اللہ  نے اس کی تفسیریوں کی کہ حق کے بغیر کسی قسم کااستفادہ کرنا عرق ظالم ہے ۔      [ابوداؤد،الامارہ:۳۰۷۸]

                صورت مسؤلہ میں ازروئے قانون وقف کی شرائط کالحاظ نہیں رکھا گیا اورنہ ہی وقف کرتے وقت اپنی اولاد کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ وقف کنندہ کو چاہیے تھا کہ وہ قطعہ اراضی مسجد کی انتظامیہ کے حوالے کردیتا یا پھر اس کے قانونی تقاضے پورے کرکے مسجد کے نام رجسٹری کرادیتا ۔کم ازکم اپنی اولاد کواس سے آگاہ کرکے انہیں اعتماد میں لے لیتا ،تاہم اس کے بیٹے نے زبانی وقف شدہ قطعہ ارضی دانستہ یاغیر دانستہ طورپر آگے فروخت کردیااوراس کی رقم وصول کر کے اس قطعہ اراضی کی خریدارکے نام رجسٹری بھی کرا دی ہے۔ اس میں خریدار کاکوئی قصور نہیں ہے لیکن انتظامیہ مسجد کے تنازعہ کے پیش نظر پنچائتی فیصلہ ہوا کہ خریدار اس قطعہ اراضی سے نومرلے زمین مسجد کودے گا اوراس پروضوخانہ اورباتھ وغیرہ تعمیر کرائے گا اور فریقین نے نہ صرف اس فیصلہ کوقبول کیا بلکہ حسب وضاحت بالا اس پر عمل درآمد بھی ہو گیا، اب انتظامیہ کوچاہیے کہ وہ دوبارہ اس تنازعہ کونہ اٹھائیں، بلکہ اس فیصلہ کوقبول کرکے باہمی اتفاق ویگانگت کی فضا پیدا کریں۔ حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کواپنی طے شدہ شرائط کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس بنا پر اہل مسجد اب مسجد کی آبادی کے لئے خلوص کے ساتھ کوشش کریں اوراس قسم کے تنازعات سے باہمی نفرت کی فضاپیدا نہ کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:74

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ