سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) متولی مسجد کے عہدے کا مقام

  • 11967
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2035

سوال

(27) متولی مسجد کے عہدے کا مقام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلا م میں متولی مسجد کے عہدے کاکیامقام ہے، کیایہ ایک بد عتی کردارہے یاامام اورخطیب سے اونچا ہے، جب خلفائے راشدین مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطیب تھے تو متولی مسجد کون ہوتا تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد سے متعلقہ ضروریات کی فراہمی کاانتظام وانصرام کرنا تولیت کہلاتا ہے ۔قرآن مجیدنے مشرکین مکہ کاذکرکرتے ہوئے ان کی تولیت مسجد حرام پرتبصرہ کیاہے کہ انہیں حجاج کرام کوپانی پلانے اوردیگر امور مسجد بجالانے پر بڑاناز تھا۔ وہ اس بنا پر اہل ایمان کوبڑی حقار ت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’کیاتم نے حاجیوں کوپانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد کرنے کواس شخص کے کام کے برابر قرار دیا ہے جو اللہ  تعالیٰ پرایمان لائے اورآخرت پریقین رکھے اور اللہ  تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرے  اللہ  تعالیٰ کے ہاں یہ برابر نہیں ہوسکتے ۔‘‘    [۹/التوبہ:۱۹]

                 اللہ  تعالیٰ نے دوسرے مقام پر ان کادعویٰ تولیت مسترد کرتے ہوئے فرمایا:

                ’’یہ مشرک مسجد حرام کے متولی نہیں ہیں، اس کے متولی تووہی ہوسکتے ہیں جوتقویٰ شعار ہیں۔‘‘     [۸/الانفال:۳۴]

                ان آیات اوردیگر حقائق کی روشنی میں تولیت کی درج ذیل شرائط ہیں :

٭  تقویٰ شعاری اورپرہیزگار ی اس کی بنیادی شرط ہے متولی کوپرہیزگار اورتقویٰ شعار ہوناچاہیے۔

٭  مساجد دینی معاملات کی بجاآوری کے لئے بنائی جاتی ہیں، اس لئے متولی مسجد کاصاحب علم اورمعاملہ فہم ہونا ضروری ہے ۔

٭  مسجد میں ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، اس لئے متولی کومستقل مزاج اوربردبارہوناچاہیے۔

٭  اخراجات کے سلسلہ میں امانت دار ہواوراپنی جیب سے خرچ کرنے کاعادی ہو۔

٭  ذاتی طورپراثر ورسوخ والاہو، تا کہ مسجد کے نظام میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے نمٹاجاسکے ۔

                                                چونکہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد نبوت اورخلفائے راشدین کے دورخلافت میں بیت المال کی بنیادیں مضبوط تھیں۔ مسجد کا نظام چلانے کے لئے چندہ وغیرہ کی تحریک نہیں چلائی جاتی تھی، اس کے علاوہ سادہ سی مسجد بناکر رشدوہدایت پھیلانے کاکام شروع کر دیا جاتاتھا، امامت وخطابت کے فرائض خودرسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے بعد خلفائے راشدین سرانجام دیتے تھے،اس لئے مسجد کانظام چلانے میں کوئی دشوار ی پیش نہ آتی تھی ۔جب سے اہل ثروت حضرات نے مساجد پرخرچ کرنے کواپنے لئے فخر و مباہات کاذریعہ بنایا ہے اور اہل علم حضرات نے خطابت وامامت کوایک پیشے کی صورت قرار دے لیا ہے اس وقت سے مساجد کاداخلی اورخارجی نظام درہم برہم ہوچکا ہے، آج بھی اگر مساجد کاداخلی نظام اہل علم کے پاس ہواوراخراجات کی ذمہ داری مال دار حضرات قبو ل کرلیں توتولیت مساجد کے متعلق وہ سوالات پیدانہیں ہوں گے جوسائل نے اپنے سوال میں اٹھائے ہیں ۔اس وضاحت کے بعد ہم کہتے ہیں کہ تولیت مسجد نہ بدعتی کردار ہے اورنہ خطیب اورامام سے اونچاعہدہ ہے، نیز خلفائے راشدین خود ہی مسجد نبوی کے خطیب اورامام تھے اوراس کی تولیت بھی انہی کے پاس تھی، یہ تولیت دنیاوی طور پر باعث فخر ومباہات نہیں بلکہ یہ حضرات اپنے لئے ذریعہ نجات خیال کرتے ہوئے اسے سرانجام دیتے تھے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:73

تبصرے