سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) سمت قبلہ کا تعین کرنا

  • 11966
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 2845

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں جوقدیم مساجد تعمیر شدہ ہیں، ان کی سمت قبلہ کی تعیین کے متعلق اکابر اہلحدیث نے بڑی محنت اورجانفشانی سے کام لیاتھا جبکہ آج کل ہمارے کچھ نوجوانوں کے ہاتھ بیرون ملک سے درآمد کردہ جائے نماز آئے ہیں جن پر قبلہ نمانصب ہے۔ جدید قبلہ نماکے مطابق پہلے تعیین کردہ سمت قبلہ میں کہیں کم اورکہیں زیادہ فرق ہے ،اس وجہ سے جماعتی احباب تذبذب کاشکار ہیں براہِ کرم اس سلسلہ میں کتاب سنت سے ہماری راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ دین اسلام کے تمام احکام کی بنیاد یسر و سہولت اورسادگی وبے تکلفی ہے کیونکہ شریعت کادائرہ حکومت تمام جہان کے بحروبر اورشہری ودیہاتی آبادیوں پرحاوی ہے۔ اسلامی فرائض کی ادائیگی جس طرح شہریوں پرعائد ہے اسی طرح دیہاتیوں اورپہاڑوں کے رہنے والے ناخواندہ حضرات پربھی ہے، اس لئے جواحکام اس حدتک عام ہوں ان کے متعلق رحمت وحکمت کاتقاضا ہے کہ انہیں جدید آلات پرموقوف نہ رکھاجائے تاکہ ہرخاص وعام انہیں بآسانی سرانجام دے سکے ۔اس ضروری تمہید کے بعد نماز پڑھتے وقت قبلہ کے متعلق بھی شریعت نے آسان اورسادہ طریقہ ہی اختیار فرمایا ہے جسے ہرشہری اور دیہاتی بسہولت عمل میں لاسکے، چنانچہ اس کے متعلق ہمارے اسلاف کا طرزعمل حسب ذیل ہے :

٭  سمت قبلہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ نمازکے وقت تم اپنے چہروں کومسجد حرام کی طرف کرو‘‘۔   [۲/البقرہ:۱۴۴]

                اس آیت کریمہ میں بیت  اللہ  کے بجائے مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کاحکم دیا ہے جوکہ بیت  اللہ  سے زیادہ وسیع ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں استقبال قبلہ کے متعلق شریعت نے تنگی کے بجائے وسعت کوپیش نظررکھا ہے ،چنانچہ اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد حرام کے بعد سب سے پہلی مسجد جواسلام میں بنائی گئی وہ مسجد قبا ہے۔ اس مسجد کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جبکہ مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدس تھا، پھر جب تحویل قبلہ کی آیات نازل ہوئیں تواس کی خبر لے کر مسجد قبا میں ایک صحابی اس وقت پہنچا جب صبح ہو رہی تھی۔ انہوں نے دوران نماز ہی تحویل قبلہ کی خبردی توامام اورپوری جماعت بیت اللہ کی جانب پھر گئی۔  [صحیح بخاری ،الصلوٰۃ :۴۰۳]

                اس واقعہ کی اطلاع رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہو ئی توآپ نے ان حضرات کے اس فعل کی تصویب فرمائی اب ظاہر ہے کہ حالت نماز میں اہل قبا نے جو سمت قبلہ اختیار کی اس میں اس قسم کے آلات کاقطعاًکوئی دخل نہ تھا بلکہ انہوں نے اپنے ظن غالب کے مطابق تحری وکوشش کر کے سمت قبلہ کواختیار کیا ۔نماز کے بعد بھی انہوں نے اس ظن وتخمینہ کے علاوہ کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا ۔پھر سیدنا حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے وقت ہرصوبے میں مساجد تعمیرہوئیں اورعمال حکومت نے اس سلسلہ میں کسی قسم کے آلات سمت قبلہ کی تعیین کے لئے استعما ل نہیں کیے بلکہ اس کی تعیین تحری و تخمینہ سے کی گئی ،بلکہ فقہاء ومحدثین کی صراحت کے مطابق اگر کوئی بیت  اللہ  کے سامنے نمازاد ا کرتا ہے توا س کے لیے عین قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے جبکہ دوسروں کے لئے عین قبلہ کے بجائے جہت قبلہ ضروری ہے اورجہت قبلہ کی تعیین بھی سادہ طریقہ سے کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ سے دوسرے شمالی علاقوں کے لئے ارشاد نبوی ہے کہ ’’مشرق ومغرب کے درمیان قبلہ ہے۔‘‘     [ترمذی، الصلوٰہ: ۳۴۲]

                                                اس حدیث سے نقطہ مشرق ومغرب کی درمیانی قوس، یعنی نصف دائرہ کی مقدا رکے متعلق جہت قبلہ ہونے کادعویٰ کیا جاسکتا ہے لیکن محققین امت نے اس حدیث کو عرف عام پرمحمول کر کے مشرق ومغرب سے مشرق ومغرب کی جہت کومراد لیا ہے۔ فقہاء نے اس کی تفصیل یوں کی ہے کہ اگر نمازی کی پیشانی کے درمیان سے خط مستقیم نکل کرعین کعبہ پرگزرے تویہ قبلہ مستقیم ہے اگر پیشانی کے درمیان سے نکلنے والا خط عین کعبہ پر نہیں پہنچتا لیکن پیشانی کے دائیں بائیں اطراف سے کوئی خط عین کعبہ پرپہنچے تواس قدر انحراف قلیل ناقابل التفات ہے اور علمائے ہیئت نے انحراف قلیل کی تعیین اس طرح کی ہے کہ۴۵درجہ تک انحراف ہوتو قلیل بصورت دیگر انحراف کثیر ہے جوقابل التفات واعتراض ہے کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے اعتبار سے لوگوں کی مثال ایسے ہے جیساکہ مرکز کے گرد دائرہ ہوتا ہے اورکسی بھی دائرہ کاپھیلاؤ اوراتساع اپنے مرکز ۴/۱دائرہ تک ہوسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ہوتا ، اس بنا پر دائرہ کے ربع تک انحراف ہویعنی کعبہ سے ۴۵درجہ دائیں جانب اور۴۵درجہ بائیں جانب انحراف کاجواز ہے واضح رہے کہ کسی بھی دائرہ کاچوتھائی حصہ نوے درجہ تک ہوتا ہے ۔اسے دائیں بائیں تقسیم کرکے ۴۵،۴۵درجہ رکھاگیا ہے ۔تعیین قبلہ کے متعلق ایک سادہ طریقہ یہ ہے جسے ماہرین نے بیان کیاہے کہ سال میں دومرتبہ نصف النہار کے وقت سورج عین بیت  اللہ  کے اوپر ہوتا ہے۔ اوروہ دن ۲۷مئی اور۱۶جولائی ہیں ۔آفتاب کے نصف النہار مکہ پرپہنچنے کا ہمارے ہاں ۲۷مئی کو۲بجکر ۱۷منٹ اور۱۶جولائی کو۲بجکر ۲۶منٹ ہے ان اوقات میں عمود کاسایہ قبلہ پر ہوگا، دھوپ میں کسی بھی وزن دادرسی کوان اوقات میں لٹکا کرسمت قبلہ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے مصر اور دوسرے شہروں میں اس طرح موٹے موٹے آثار ونشانات کے ذریعے تحری کرکے سمت قبلہ کاتعین کیااور مساجد تعمیر کرائیں اورعام مسلمانوں نے ان کااتباع کیا۔ البتہ مصر کے فرماں روا احمد بن طولون نے جب مصر میں جامع مسجد کی بنیا دڈالی تواس نے مدینہ طیبہ بھیج کر مسجد نبوی کی سمت قبلہ دریافت کرائی اوراس کے مطابق مسجد بنائی جوفاتح مصر حضرت عمروبن العاص کی جامع مسجد سے کسی قدر منحرف ہے لیکن علما نے جامع مسجد عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے اتباع کواولیٰ قرار دیا ہے اوراطراف مصر کی مساجد اسی کے مطابق ہیں، واضح رہے کہ امیر مصر نے جب ماہرین کے ذریعے آلات ریاضیہ سے مسجد نبوی کی سمت قبلہ کوجانچاتو معلوم ہوا کہ آلا ت کے ذریعے نکالے ہوئے خط سمت قبلہ سے مسجد نبوی کی سمت قبلہ دس درجہ مائل بجنوب ہے، حالانکہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سمت قبلہ کی تعیین بذریعۂ وحی فرمائی تھی، اس لئے مسجد نبوی کی سمت قبلہ کے عین مطابق تھی اوران ماہرین کاآلات کے ذریعے اندازہ غلط تھا۔ اس لئے ایسے معاملات میں زیادہ باریک بینی سے کام نہ لیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے بعض اوقات اپنے اسلاف سے بدگمانی پیداہوتی ہے۔    [و اللہ  اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:72

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ