سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) دورِ حاضر میں آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنا

  • 11960
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1013

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت رکھتا ہوں، اس پر فتن دور میں میری ایک ہی خواہش ہے کہ میں رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ پر بیعت کروں ،کیا اب ایسا ہوسکتا ہے ؟میراکافی عرصہ پہلے نماز کے بعد ذکرو اذکار ’’لا الہ الا  اللہ ‘ تک محدود ہوتا تھا،میں نے خواب میں رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کودیکھا ،انہوں نے مجھے کہا کہ ہمیں بھی یاد رکھا کرو، یعنی لاالہ الا اللہ  کے ساتھ محمدرسول  اللہ  بھی پڑھاکرو تاکہ ہم بھی تمہاری مدد کریں ،اس کی شرعی حیثیت واضح کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیعت ایک ایسا معاہدہ ہے جو ’’لاالہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ پڑھنے کے بعد شروع ہو جاتا ہے، اس معاہدے کااولین تقاضا یہ ہے کہ بند ہ اس عالم رنگ وبو میں  اللہ  تعالیٰ کے احکام وفرامین پرخلوصِ دل سے عمل پیرا رہے اوررسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہدایات کودل وجان سے قبول کرے۔رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کایہی مقصد ہے، اس کے لئے ہاتھ پرہاتھ رکھنا ضروری نہیں ہے اورنہ ہی اب ایسا ممکن ہے کیونکہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل جوبیعت رائج ہے اسے بیعتِ تصوف کہاجاتا ہے اس میں بہت اختلاف ہے۔ بعض علما اسے ناجائزکہتے ہیں، جبکہ بعض حضرات اس کے قائل وفاعل ہیں۔ البتہ ہمیں اس کے متعلق شرح صدر نہیں ہے کیونکہ شریعتِ اسلامیہ میں بیعتِ اسلام ،بیعتِ جہاد اور بیعتِ احکام کاثبوت ملتا ہے لیکن بیعت تصوف کاوجود قرون اولیٰ میں نظر نہیں آتا۔ اس لئے انسان کوچاہیے کہ خلوص دل سے کتاب وسنت پر عمل کرنے کا  اللہ  تعالیٰ سے عہد کرے اوراس کے لئے مخلصانہ کوشش کرے، لاالہ الا اللہ  کابھی یہی مطالبہ ہے جسے پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔

                                                خواب کے متعلق واضح رہے کہ اسے کسی شرعی حکم کی بنیاد نہیں قرار دیا جاسکتا ،صرف حضرات انبیا علیہم السلام  کویہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے خواب وحی ہوتے ہیں اورشرعی احکام کی بنیاد قرار پاتے ہیں ۔اس وضاحت کے بعد واضح ہوکہ افضل الذکر توصرف لاالہ الا اللہ ہے۔ محمد رسول  اللہ  کومستقل طور پر ذکر کاحصہ بناناجائز نہیں ،البتہ کبھی کبھار اختتامِ ورد کے موقع پرمحمد رسول  اللہ  کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔سوال میں یہ کہنے پر ’’ہم تمہاری مدد کریں گے‘‘ کا جو اشارہ ملاہے یہ ایک ذہنی اختراع ہے جوشریعتِ اسلامیہ کے خلاف باغیانہ اقدام اورکھلا شرک ہے، اس سے اجتناب کرناچاہیے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:67

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ