پہلے ہم احاد یث ذکر کرتے ہیں پھر انکی روشنی میں جو اب دیں گے :
صحیح بخا ری ( 2؍ 879 ) اور مسلم ( 2؍ 204) میں ابن عمر سے رو ایت آ تی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے بال جو ڑنے والی اور جو ڑوانے والی پر لعنت فرما ئی ہے ۔
اور مسلم ( 2؍ 204 ) میں اسما ء بنت ابی بکر سے روایت آ تی ہے وہ کہتی ہیں کہ ایک عو رت رسو ل اللہ ﷺ کے پا س آئی اور کہنے لگی : اے اللہ کے رسو ل اللہ ﷺ میری بیٹی دلہن ہو ئی ہے اور چیچک کی وجہ سے اسکی بال جھڑگئے ہیں کیا بال جو ڑدوں ؟ تو آ پ ﷺنے فرما یا :
’’ بال جو ڑنے والی اور جو ڑوانے والی پر اللہ کی لعنت فرما ئی ہے۔‘‘
اور ایک رو ایت میں ہے : میں نے اپنی بیٹی کی شا دی کر دی ہے اسکے سر کے بال جھڑگئے ہیں اگر میں اسے با ل جو ڑدوں تو اسکے شو ہر کو اچھا لگے گا ۔ اے اللہ کےرسو ل ! (ﷺ) مے اسے روک دیا ۔
اور مسلم ( 2؍ 205 ) میں حمید بن عبدالرحمن بن عو ف سے روایت آئی ہے کہ انہو ں نے معا ویہ بن ابی سفیا ن سے حج کے سا ل منبر پر سنا وہ غلا م کے ہا تھ سے بالو ں کا ایک چو ٹلا پکڑے کہہ رہے تھے اے مدینے والو ! تمھا رے علما ء کہا ں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا وہ جیسی چیز سے منع فر ما یا کرتے تھے اور فر ما رہے تھے جب بنی اسرائیل کی عو رتو ں نےیہ چیز یں بنا لیں تو وہ ہلا ک ہو گئے ۔
تو ثا بت ہو ا کہ با لو ں کو جو ڑنا مطلقا ًً حر ام ہے اور مصنوعی بال رکھنا بھی حرام ہےاسی الشیخ نے الصحیحہ ( 34؍ 6 برقم : 1008 ) میں کہا ہے : ‘‘ معا ویہ سے مرفو عاًً روایت ہے کہ جس عو رت نے اپنے بالوں میں غیر بال داخل کئے تو اس نے جھو ٹ داخل کیا ۔ 0(احمد )
جب یہ حکم ہےاس عو رت کا جو اپنے با لو ں میں غیر بال داخل کرتی ہےاو اس عو رت کا کیا حکم ہو گا جو اپنے سر پر مستعا ر با لوں کی ٹو پی رکھتی ہے جیسے آجکل ( باروکہ ) کہتے ہیں اور اسکے بعد اس شخص کا کیا حکم ہو گا جو بعض مذاہب کی تقلید کرتے ہو ئے مطلق یا مقید اس کی ابا حت کا فتو ی دیتا ہے اور اسے احا دیث صحیحہ کی مخا لفت کی کو ئی پر واہ نہیں ۔
اور ھیئۃ کبا ر العلماء ( 2؍ 852) میں ہے : ‘‘ ہا رو کہ : ( یعنی مصنو عی بال ) حرام ہے – اور یہ وصل میں داخل ہیں اگر وصل نہ بھی ہو تو یہ عو رت کے بالو ں کو اصل سے زیا دہ لمبا ظاہر کر تے ہیں تو یہ وصل کے مشابہ ہو او ر نبی ﷺ نے جو ڑنے او ر جو ڑوانے والی پر لعنت فر ما ئی ہے ۔
لیکن اگر عو رت کے سر پر سر ے سے با ل ہی نہ ہو ں اور وہ گنجی ہو تو مصنو عی با لو ں کے استعما ل میں کو ئی حر ج نہیں کیو نکہ یہ عیب چھپا نہ ہے اور عیو ب کا ازالہ جا ئز ہے ۔
میں کہتا ہوں : ازالہ عیو ب ک تب جا ئز ہو کہےنہی نہ ہو اور صحیح احاد یث میں اس سے مطلقا ًً نہی ثا بت ہے جیسے کہ ابھی اسما ء رضی اللہ عنہا کی حد یث گزری ۔ تو استثناء کا کو ئی اعتبا ر نہں کیو نکہ یہ امر نبی ﷺ کے خلا ف ہے اوررسو ل اللہ ﷺ نے اپنی امت پر ہما رے علما ء سے زیا دہ شفیق ہیں انہو ں نے مبا ح نہیں فر ما یا بلکہ جو ڑنے سے مطلقا ًً نہی فرما ئی ہے ، تو ان مفتیو ں کو کیا لگا ہے جو جواز کا فتو وی دیتے ہیں ۔ یہ فتو ی، فتو ی دینے والے پر ہی رد کیا جا ئے گا ۔
امام النووی شر ح مسلم ) 2؍ 204) میں کہتے ہیں : یہ احادیث بالو ں کے جو ڑنے کی حرمت میں اور مطلق جو ڑوانے والیو ں پر لعنت کرنے میں صریح ہیں ۔ یہی ظاہر اور افضل ہے اور ہمارے بعض اصحا ب نےیہ تفصیل می ہےکہ اگر اپنے با لو ں میں انسا نی با ل جو ڑے ہیں تو بلا خلا ف حرام ہیں خو اہ وہ مر د کے بال ہو ں یا عورت کے ۔ خو اہ وہ محر م کے یا خا وند کے یا کسی اور کے بال ہوں احاد یث کے عمو م کی وجہ سے اور اسلئے بھی کہ انسا نی اجزاء سے بو جہ کر امت کے فا ئدہ اٹھاناحر ام ہے بلکہ اسکے با ل ونا خن اور دیگر اجزاء دفن کئے جا ئیں ۔
اور اگر غیر انسانی جو ڑے ہیں تو اگر وہ مر دار یا کسی ایسے جانو ر کے ہو ، جن کا گو شت نہیں کھا یا جاتا او رزندہ حا لت میں اس سے اتا ر لئے گئے ہوں تو وہ پلید ہیں اور حد یث کی وجہ سے حر ام ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ نما ز میں قصد اًً نجا ست اٹھانا ہے ۔ اور ان دونو ں انو اع میں شا دی شدہ غیر شا دی شدہ مر دوعورت بر ابر ہیں ۔
اگر بال غیر انسانی اور پا ک ہو ں او اس عو رت کے لئے حرام ہے جسکا خاوند یا ما لک نہ ہو ۔ اور اگر خا وند یا ما لک ہو تو تین وجہیں ہیں :
اول و جہ : ظاہر احاد یث کی وجہ سے حر ام ہیں ۔
دوسری وجہ : حر ام نہیں ، اور انکے نزدیک زیا دہ صحیح یہ ہے کہ اگر خاوند یا مالک کی اجا زت سے کر تی ہےتو کو ئی حرج نہیں ورنہ حرام ہے ۔
میں کہتا ہوں : پہلی وجہ صحیح ہے کیونکہ ان احادیث میں کو ئی تفصیل نہیں اور اسکی سا تھ ہم جا بر کی حدیث اس باب میں ذکر کر تے ہیں ۔
پھر کہا ہے : قا ضی عیا ض کہتے ہیں : اس مسئلے میں علما ء نے اختلاف کیا ہے ، مالک ،طبری اور اکثر اس طر ف گئے ہیں کہ جو ڑنا کسی بھی چیز سے ممنوع اور جو ڑنے میں بال ، اون ، کپڑا سب برابر ہیں ۔ انہوں نے حجت بنایا ہے جا بر کی حد یث کو جسے مسلم نے ذکر کیا ہے کہ : ‘‘ نبیﷺ نے عو رت کا کسی بھی چیز کو جو ڑنے سے ڈانٹا ہے’’
اور لیث بن سعد کہتے ہیں : نہی بالوں کے سا تھ خا ص ہے ، اون ، کپڑا وغیر ہ جو ڑنے میں کو ئی حر ج نہیں ۔ اور بعض نےکہاہے : یہ سب جائز ہیں ۔
قاضی نے کہا ہے : ریشمی رنگ بر نگے دھا گے و غیر ہ جو بالوں کے مشا بے نہ ہو منع نہیں ہیں ۔ یہ وصل نہیں اور نہ ہی یہ وصل کے مقصد کے معنی میں ہیں یہ توحسن ہیں یہ تو حسن و جما ل کے لئے ہیں اسے مرقا ۃ ( 8؍ 295) میں نقل کیا گیا ہے اور بر قرا ر رکھا گیا ہے ۔
اور مغنی ( 1؍ 107 ) میں ہے : بالو ں کے علا وہ کو ئی چیز اس قدر کہ بالو ں کوباندھا جا سکے میں کو ئی حرج نہیں ۔ کیونکہ اسکی ضرورت پڑتی ہی اور اس سے بچنا ممکن نہیں ۔
پھر کہا ہے : ظاہریہ ہے کہ با لو ں کو بالو ں کے سا تھ جو ڑنا حرام ہے کیو نکہ یہ تدلیس ہےاور استعما ل ایسی چیز کا ہے جسکے پا ک یا پلید ہو نے کا پتہ نہیں چلتا اوراسکے علا وہ حر ام نہیں کیو نکہ یہ معانی معدوم ہیں اور اسمیں مصلحت کا حصو ل ہے اور عورت کااپنے کا شو ہر کیلئے بغیر کسی نقصا ن کے اپنے آ پکو حسین بنا نا ہے ۔
اور ظا ہر میر ے نزدیک وہی ہے جو محمد بن صا لح العثیمین نے فر ائد الفو ائد ص ( 215 ) ذکر کیا ہے :
‘‘فائدہ : اصحاب ذکر کرتے ہیں کہ عورت کا با لوں کو غیر بالو ں کے سا تھ جو ڑنے میں حر ج نہیں لیکن یہ محل نظر ہے کیو نکہ نبی ﷺ کا قول ہے : (( لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ )) میں عمو م ہے ہے اور اسکی تخصیص بلا دلیل ہے۔ اور اس عموم کی تا ئید اس حدیث سے ہو تی ہے جو مسلم نے ( 2؍ 205 ) میں کتا ب اللبا س والزینۃ با ب تحریم فعل الو صلۃ ’’ میں جا بر سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے عو رت کو بالوں کے سا تھ کچھ بھی جو ڑنے سے منع فرما یا ہے ۔’’
قتادہ کہتے ہیں : انکی مراد وہ کپڑے کی کتر ن تھی جو عو رتیں اکثر بالوں میں لگا تیں تھیں ۔ اور کہتے ہیں کہ ایک آ دمی عصا لے کے آ یا جس کر سر ےپر کپڑے کی کترن تھی تو معا ویہ نے فر مایا : ‘‘ خبر دار یہ زور ہے ’’ ۔
اور یہ وصل کی مطلق تحریم امام احمد کی دو میں سے ایک روایت ہے ۔ آداب الشر عیہ ( 3؍ 355 ) میں کہا ہے : ‘‘ فرامل ( یعنی چوٹیو ں ) میں کو ئی حر ج نہیں ہے ۔ مروزی کہتے ہیں : میں نے ابو عبد اللہ سے پو چھا اس عورت کے با رے میں جو اپنے سر میں چو ٹی باندھتی ہے تواسے مکروہ سمجھا ، انہیں کہا کہ معمر عو رت اگر چو ٹی با ندھے او ؟ ۔ اسکے لئے بھی رخصت نہیں ۔
القرامل : وہ عو رتیں اون وغیر ہ کی بنی با لو ں میں با ندھتی ہیں ۔
اور امام ابو داود نے اپنی سنن ( 2؍ 22 ) ذکر کیا ہے ‘‘ ابو داود کہتے ہیں : امام احمد کہا کرتے تھے کہ چو ٹیو ں میں کو ئی حر ج نہیں ’’ ۔
تویہ امام احمد کی دوسری روایت ہے ۔ مر اجعہ عو ن المبعو د ( 4؍ 128 )