سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(198) مصنو عی با ل یا چو ٹی کا استعما ل

  • 11959
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1108

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بالو ں کے جو ڑنے ، مصنو عی بالوں کا استعما ل کرنا اور دھا گے کی بنی چو ٹیاں جو عو رتیں بالو ں میں با ند ھتی ہیں زینت کیلئے اور تا کہ بال نہ بکھر یں تو ان کاکیا حکم ہے ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے ہم احاد یث ذکر کرتے ہیں پھر انکی روشنی میں جو اب دیں گے :

 صحیح بخا ری ( 2؍ 879 ) اور مسلم ( 2؍ 204) میں ابن عمر ﷜ سے رو ایت آ تی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے بال جو ڑنے والی اور جو ڑوانے والی پر لعنت فرما ئی ہے ۔

اور مسلم ( 2؍ 204 ) میں اسما ء بنت ابی بکر ﷜ سے روایت آ تی ہے وہ کہتی ہیں کہ ایک عو رت رسو ل  اللہ ﷺ کے پا س آئی اور کہنے لگی : اے اللہ کے رسو ل اللہ ﷺ میری بیٹی دلہن ہو ئی ہے اور چیچک کی وجہ سے اسکی بال جھڑگئے ہیں کیا بال جو ڑدوں ؟ تو آ پ ﷺنے فرما یا :

«لعن اللہ الو ا صلۃ والمستو صلۃ»

’’ بال جو ڑنے والی اور جو ڑوانے والی پر اللہ کی لعنت فرما ئی ہے۔‘‘

 اور ایک رو ایت میں ہے : میں نے اپنی بیٹی کی شا دی کر دی ہے اسکے سر کے بال جھڑگئے ہیں اگر میں اسے با ل جو ڑدوں تو اسکے شو ہر کو اچھا لگے گا ۔ اے اللہ کےرسو ل ! (ﷺ) مے اسے روک دیا ۔

اور مسلم ( 2؍ 205 ) میں حمید بن عبدالرحمن بن عو ف سے روایت آئی ہے کہ انہو ں نے معا ویہ بن ابی سفیا ن سے حج کے سا ل منبر پر سنا وہ غلا م کے ہا تھ سے بالو ں کا ایک چو ٹلا پکڑے کہہ رہے تھے اے مدینے والو ! تمھا رے علما ء کہا ں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا وہ جیسی چیز سے منع فر ما یا کرتے تھے اور فر ما رہے تھے جب بنی اسرائیل کی عو رتو ں نےیہ چیز یں بنا لیں تو وہ ہلا ک ہو گئے ۔

تو ثا بت ہو ا کہ با لو ں کو جو ڑنا مطلقا ًً حر ام ہے اور مصنوعی بال رکھنا بھی حرام ہےاسی الشیخ نے الصحیحہ ( 34؍ 6 برقم : 1008 ) میں کہا ہے : ‘‘ معا ویہ ﷜ سے مرفو عاًً روایت ہے کہ جس عو رت نے اپنے بالوں میں غیر بال داخل کئے تو اس نے جھو ٹ داخل کیا ۔ 0(احمد )

جب یہ حکم ہےاس عو رت کا جو اپنے با لو ں میں غیر بال داخل کرتی ہےاو اس عو رت کا کیا حکم ہو گا جو اپنے سر پر مستعا ر با لوں کی ٹو پی رکھتی ہے جیسے آجکل ( باروکہ ) کہتے ہیں اور اسکے بعد اس شخص کا کیا حکم ہو گا جو بعض مذاہب کی تقلید کرتے ہو ئے مطلق یا مقید اس کی ابا حت کا فتو ی دیتا ہے اور اسے احا دیث صحیحہ کی مخا لفت کی کو ئی پر واہ نہیں ۔

اور ھیئۃ کبا ر العلماء ( 2؍ 852) میں ہے : ‘‘ ہا رو کہ : ( یعنی مصنو عی بال ) حرام ہے – اور یہ وصل میں داخل ہیں اگر وصل نہ بھی ہو تو یہ عو رت کے بالو ں کو اصل سے زیا دہ لمبا ظاہر  کر تے ہیں تو یہ وصل کے مشابہ ہو او ر نبی ﷺ نے جو ڑنے او ر جو ڑوانے والی پر لعنت فر ما ئی ہے ۔

لیکن اگر عو رت کے سر پر سر ے سے با ل ہی نہ ہو ں اور وہ گنجی ہو تو مصنو عی با لو ں کے استعما ل میں کو ئی حر ج نہیں کیو نکہ یہ عیب چھپا نہ ہے اور عیو ب کا ازالہ جا ئز ہے ۔

میں کہتا ہوں : ازالہ عیو ب ک تب جا ئز ہو کہےنہی نہ ہو اور صحیح احاد یث میں اس سے مطلقا ًً نہی ثا بت ہے جیسے کہ ابھی اسما ء رضی اللہ عنہا کی حد یث گزری ۔ تو استثناء کا کو ئی اعتبا ر نہں کیو نکہ یہ امر نبی ﷺ کے خلا ف ہے اوررسو ل اللہ ﷺ نے اپنی امت پر ہما رے علما ء سے زیا دہ شفیق ہیں انہو ں نے مبا ح نہیں فر ما یا بلکہ جو ڑنے سے مطلقا ًً نہی فرما ئی ہے ، تو ان مفتیو ں کو کیا لگا ہے جو جواز  کا فتو وی دیتے ہیں ۔ یہ فتو ی، فتو ی دینے والے پر ہی رد کیا جا ئے گا ۔

امام النووی  شر ح مسلم ) 2؍ 204) میں کہتے ہیں : یہ احادیث بالو ں کے جو ڑنے کی حرمت میں اور  مطلق جو ڑوانے والیو ں پر لعنت کرنے میں صریح ہیں ۔ یہی ظاہر اور افضل ہے اور ہمارے  بعض اصحا ب نےیہ تفصیل می ہےکہ اگر اپنے با لو ں میں انسا نی با ل جو ڑے ہیں تو بلا خلا ف حرام ہیں خو اہ وہ مر د کے بال ہو ں یا عورت کے ۔ خو اہ وہ محر م کے یا خا وند کے یا کسی اور کے بال ہوں احاد یث کے عمو م کی وجہ سے اور اسلئے بھی کہ انسا نی اجزاء سے بو جہ کر امت کے فا ئدہ اٹھاناحر ام ہے بلکہ اسکے با ل ونا خن اور دیگر اجزاء دفن کئے جا ئیں ۔

اور اگر غیر انسانی جو ڑے ہیں تو اگر وہ مر دار یا کسی ایسے جانو ر کے ہو ، جن کا گو شت نہیں کھا یا جاتا او رزندہ حا لت میں اس سے اتا ر لئے گئے ہوں تو وہ پلید ہیں اور حد یث کی وجہ سے حر ام ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ نما ز میں قصد اًً نجا ست اٹھانا ہے ۔ اور ان دونو ں انو اع میں شا دی شدہ غیر شا دی شدہ مر دوعورت بر ابر ہیں ۔

اگر بال غیر انسانی اور پا ک ہو ں او اس عو رت کے لئے حرام ہے جسکا خاوند یا ما لک نہ ہو ۔ اور اگر خا وند یا ما لک ہو تو تین وجہیں ہیں :

اول و جہ : ظاہر احاد یث کی وجہ سے حر ام ہیں ۔

دوسری وجہ : حر ام نہیں ، اور انکے نزدیک زیا دہ صحیح یہ ہے کہ اگر خاوند یا مالک کی اجا زت سے کر تی ہےتو کو ئی حرج نہیں ورنہ حرام ہے ۔

میں کہتا ہوں : پہلی وجہ صحیح  ہے کیونکہ ان احادیث میں کو ئی تفصیل نہیں اور اسکی سا تھ ہم جا بر کی حدیث اس باب میں ذکر کر تے ہیں ۔

پھر کہا ہے : قا ضی عیا ض کہتے ہیں : اس مسئلے میں علما ء نے اختلاف کیا ہے ، مالک ،طبری اور اکثر اس طر ف گئے ہیں کہ جو ڑنا کسی بھی چیز سے ممنوع اور جو ڑنے میں بال ، اون ، کپڑا سب برابر ہیں ۔ انہوں نے حجت بنایا ہے جا بر کی حد یث کو جسے مسلم نے ذکر کیا ہے کہ : ‘‘ نبیﷺ نے عو رت کا کسی بھی چیز کو جو ڑنے سے ڈانٹا ہے’’

اور لیث بن سعد کہتے ہیں : نہی بالوں کے سا تھ خا ص ہے ، اون ، کپڑا وغیر ہ جو ڑنے میں کو ئی حر ج نہیں ۔ اور بعض نےکہاہے : یہ سب جائز ہیں ۔

قاضی نے کہا ہے : ریشمی رنگ بر نگے دھا گے و غیر ہ جو بالوں کے مشا بے نہ ہو منع نہیں ہیں ۔ یہ وصل نہیں اور نہ ہی یہ وصل  کے مقصد کے معنی میں ہیں یہ توحسن ہیں یہ تو حسن و جما ل کے لئے ہیں اسے مرقا ۃ ( 8؍ 295) میں نقل کیا گیا ہے اور بر قرا ر رکھا گیا ہے ۔

اور مغنی ( 1؍ 107 ) میں ہے : بالو ں کے علا وہ کو ئی چیز اس قدر کہ بالو ں کوباندھا جا سکے میں کو ئی حرج نہیں ۔ کیونکہ اسکی ضرورت پڑتی ہی اور اس سے بچنا ممکن نہیں ۔

پھر کہا ہے : ظاہریہ ہے کہ با لو ں کو بالو ں کے سا تھ جو ڑنا حرام ہے کیو نکہ یہ تدلیس ہےاور استعما ل ایسی چیز کا ہے جسکے پا ک یا پلید ہو نے کا پتہ نہیں چلتا اوراسکے علا وہ حر ام نہیں کیو نکہ یہ معانی معدوم ہیں اور اسمیں مصلحت کا حصو ل ہے اور عورت کااپنے کا شو ہر کیلئے بغیر کسی نقصا ن کے اپنے آ پکو حسین بنا نا ہے ۔

اور ظا ہر میر ے نزدیک وہی ہے جو محمد بن صا لح العثیمین نے فر ائد الفو ائد ص ( 215 ) ذکر کیا ہے :

‘‘فائدہ : اصحاب  ذکر کرتے ہیں کہ عورت کا با لوں کو غیر بالو ں کے سا تھ جو ڑنے میں حر ج نہیں لیکن یہ محل نظر ہے کیو نکہ نبی ﷺ کا قول ہے : (( لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ )) میں عمو م ہے ہے اور اسکی تخصیص بلا دلیل ہے۔ اور اس عموم کی تا ئید اس حدیث سے ہو تی ہے جو مسلم نے ( 2؍ 205 ) میں کتا ب اللبا س والزینۃ با ب تحریم فعل الو صلۃ ’’ میں جا بر ﷜ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے عو رت کو بالوں کے سا تھ کچھ بھی جو ڑنے سے منع فرما یا ہے ۔’’

قتادہ  کہتے ہیں : انکی مراد وہ کپڑے کی کتر ن تھی جو عو رتیں اکثر بالوں میں لگا تیں تھیں ۔ اور کہتے ہیں کہ ایک آ دمی عصا لے کے آ یا جس کر سر ےپر کپڑے کی کترن تھی تو معا ویہ ﷜نے فر مایا : ‘‘ خبر دار یہ زور ہے ’’ ۔

اور یہ وصل کی مطلق تحریم امام احمد کی دو میں سے ایک روایت ہے ۔ آداب الشر عیہ ( 3؍ 355 ) میں کہا ہے : ‘‘ فرامل ( یعنی چوٹیو ں ) میں کو ئی حر ج نہیں ہے ۔ مروزی  کہتے ہیں : میں نے ابو عبد اللہ سے پو چھا اس عورت کے با رے میں جو اپنے سر میں چو ٹی باندھتی ہے تواسے مکروہ سمجھا ، انہیں کہا کہ معمر عو رت اگر چو ٹی با ندھے او ؟ ۔ اسکے لئے  بھی رخصت نہیں ۔

القرامل : وہ عو رتیں اون وغیر ہ کی بنی با لو ں میں با ندھتی ہیں ۔

اور امام ابو داود نے اپنی سنن ( 2؍ 22 ) ذکر کیا ہے ‘‘ ابو داود کہتے ہیں : امام احمد کہا کرتے تھے کہ چو ٹیو ں میں کو ئی حر ج نہیں ’’ ۔

تویہ امام احمد کی دوسری روایت ہے ۔ مر اجعہ عو ن المبعو د ( 4؍ 128 )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص432

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ