السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ختنہ کے وقت دعو ت مستحب ہے؟ ۔ اخو کم : فضل وہاب ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخا ری الادب المفر وص ( 321) رقم ( 1246 ) میں ذکر کرتے ہیں : سا لم سے روایت ہےوہ کہتے ہیں کہ ابن عمر نے میرا اور نعیم کا ختنہ کرایا اور مینڈھا ذبح کیا ، میں اپنے آپ کو دیکھتا کہ بچو ں پر اس بات سے خو شی کا اظہار کرتے تھے کہ ہم پر مینڈھا ذبح کیا گیا ۔
اسکی سند ضیعف ہے اس میں عمر بن حمزہ کو یحیٰ ، احمد اور نسا ئی نے ضیعف کہا ہے اور حا فظ نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ اور مسلم نےاس راوی کے سا تھ احتجا ج کیا ہے تو یہ اثر ضعیف ہو نے کی وجہ سے استحبا ب پر دلالت نہیں کرتا ۔
اور وہ حدیث جو حسن سے ثابت ہے وہ کہتی ہیں کہ عثما ن بن ابی العا ص کو کھانے کی دعوت دی گئی ، پھر کسی نےکہا آپ جانتے ہیں کہ یہ کیسی دعوت ہے، یہ لڑکی کا ختنہ ہے تو انہوں نے کہا : ‘‘ یہ ( یعنی ختنہ کی دعوت ) ایسی چیز ہےجو نبی ﷺ کے زمانے میں ہم نے نہیں دیکھی ’’ ۔ اور کھانے سے انکا ر کر دیا ۔ طبر انی نے کبیر ( 3؍7 ) میں روایت کیا ہے او راسکی سند حسن ہے جیسے کہ الصحیحہ میں ہے ۔ اور روابت کیا اسے احمد نے ( 4؍217 ) اور اسکی سند جید ہے ۔ جیسے کہ المجمع ( 4؍ 60 ) میں ہے ۔
تو اس حدیث سے دلالت ہو تی ہےکہ ختنہ کا کھا نا رسو ل اللہ ﷺ کے زما نے میں نہیں تھا ۔ اس لئے ابن قدا مہ نے المغنی ( 8؍ 117 ) میں کہا ہے : اور ختنہ کی دعو ت دی جا ئے او اس پر اسکا قبو ل کر نا نہیں ہے ۔ ہا ں اگر ولیمہ کی کسی کو دعوت دی جا ئے تو اس دعو ت کو قبو ل کرنا سنت میں وارد ہے ۔ متقدمین سے مراد رسو ل اللہ ﷺکے صحا بہ ہیں جنکی اقتداء کی جاتی ہے ۔ پھر عثما ن کی حدیث ذکر کی جو ہم نےابھی ذکر کی ۔
اور الفتاوی ( 22؍ 206 ) میں ہے : شیخ السلا م ابن تیمیہ سے زواج کا کھا نا ، تعزیت کا کھا نا ، ختنہ کاکھانا ، ولا دت کا کھانا ، انکے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے جو اب دیا:
ولیمہ کا کھا نا سنت ہے اور اسکی دعو ت قبو ل کرنے کا حکم ہےاور کسی کے فو ت ہو نے کر مو قع پر کھانا بدعت ہے اس کا کر نا اور اسکی دعوت قبول کرنا مکروہ ہے ، اور ختنہ کا ولیمہ جائز ہے جو کرنا چا ہے کر ے جو تر ک کرتا چا ہے ترک کرے ۔ اسی طر ح و لیمہ ولا دت کا ۔ ہاں اگر بچے کا عقیقہ کیا ہے تو عقیقہ سنت ہےاور اسی طر ح فرمایا : کہ ختنے کی دعوت صحا بہ نہیں کرتے تھے اور یہ مباح ہے پھر علما ء میں سے بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور بعض نےاسکی رخصت دی ہے ۔
میں کہتا ہوں : ولادت کے کھانے کب کو ئی دلیل نہیں اسلئے مستحب نہیں ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب