السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل ایک ایسے گروہ نے جنم لیاہے جواپنے ہاں ایک خود ساختہ خلیفہ سے بیعت کرنے کی دعو ت دیتے ہیں ۔آپ سے استدعا ہے کہ خلیفہ برحق کی علامتیں اورشناخت سے آگاہ فرمائیں، نیز بتائیں کہ اس کاتعین کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعی خلیفہ کے لئے مندرجہ ذیل علامتوں کاہونا ضروری ہے :
1۔ وہ قریشی ہوبشرطیکہ اخلاص کے ساتھ اقامت دین کے لئے سرگرم عمل ہو۔
2۔ جسمانی اورعلمی طور پر انتہائی مضبوط ہو۔
3۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کوعملاً نافذ کرنے کی اپنے اندر ہمت رکھتا ہو۔
4۔ امربالمعروف اورنہی عن المنکر کافریضہ ادا کرنے میں بااختیار ہو۔
5۔ امت مسلمہ نے اسے اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازا ہو،یعنی وہ خودساختہ نہ ہو۔
ایسا نہیں کہ کسی غیر ملک میں بیٹھ کروہ سیاسی پناہ لے لے اوروہاں اپنی خلافت کادعویٰ کردے اوراپنے قریشی ہونے کا اعلان کرکے دیگر ممالک میں حصول بیعت کے لئے اپنے نمائندگان مقرر کردے تاکہ بغاوت کی فضا سازگار کی جائے اوراس کے مقرر کردہ نمایندے شہر اور دیہاتوں میں پھیل جائیں اورخود ساختہ خلیفہ کی بیعت لیتے پھریں ۔ہمارے نزدیک یہ کھلی بغاوت ہے جس کی شریعت ہمیں اجازت نہیں دیتی ۔حکومت وقت کوچاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کا سختی سے نوٹس لے ،ایسا کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج اور طریقۂ کار کے خلاف ہے ۔پرفتن حالات میں زندگی بسر کرنے کے لئے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت سے راہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ایسے حالا ت میں مسلمانوں کی جماعت اوران کے امام سے چمٹے رہنا چاہیے۔‘‘ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرمسلمانوں کی جماعت اوران کاامام نہ ہوتوکیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایسے حالا ت میں تمام فرقوں سے الگ رہنا، خواہ تمہیں جنگل میں درختوں کی جڑیں چباکر ہی گزراوقات کرنا پڑے تا آنکہ تمہیں اسی حالت میں موت آجائے ۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث نمبر: ۷۰۸۴]
حدیث میں ہے کہ جب عبد اللہ بن زیاد اورمروان بن حکم نے شام میں‘ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں اورخوراج نے بصرہ میں اپنی اپنی حکومتوں کااعلان کیا توابوالمنہال اپنے باپ کے ہمراہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، میرے باپ نے ان سے عرض کیا :
اے ابوبرزہ رضی اللہ عنہ !۱ٓپ نہیں دیکھتے کہ لوگ کس قسم کے اختلاف میں الجھے ہوئے ہیں، ایسے حالا ت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
آپ نے فرمایا: میں قریش کے لوگوں سے ناراض ہوں اورمیری ناراضی اللہ کی رضاکے لئے اورمجھے اس ناراضی سے اجر ملنے کی امید ہے۔
عرب کے لوگو!تم جانتے ہوتمہارا پہلے کیا حال تھا،تم سب گمراہی میں گرفتار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دین اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت کے ذریعے اس بری حالت سے نجا ت دی، پھر تم مقام عزت پر فائز ہوگئے ۔آج تمہیں اس دنیا نے خراب کردیا ہے یہ سب بزعم خویش خلفائے دنیا کے لئے آپس میں دست وگریبان ہیں اور ایک دوسرے سے قتال کررہے ہیں ۔ [صحیح بخاری ،الفتن :۷۱۱۲]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آج ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ جب کبھی حالات ساز گار ہو جائیں کہ کتاب وسنت کے علمبردار باہمی اتحاد واتفاق سے کسی بااختیار خلیفہ پرمتفق ہوجائیں تواس کی بیعت کے لئے تحریک چلانا مناسب اور باعث اجروثواب ہے۔ لیکن کسی خود ساختہ خلیفہ کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں اورنہ ہی کسی نے اسے دیکھا ہے، اس کی خلافت کے لئے بیعت لینا، فضا سازگار کرنا، تحریک چلانا اور حکومتِ وقت کے خلاف ایک کھلی بغاو ت ہے جس کی شریعت ہمیں اجازت نہیں دیتی ۔ [و اللہ اعلم بالصواب]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب