السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ڈنمارک وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع ہوئے ہیں ،ردعمل کے طور پر پوری امت مسلمہ میں اضطراب پایا جاتا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں ہمارے لئے کیاہدایات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرناجزوایمان ہے۔ جس شخص کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار اورتعلق خاطر نہیں وہ سرے سے مؤمن ہی نہیں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین اوراولاد حتی کہ تمام لوگوں سے محبوب نہ ہو جاؤ ں۔‘‘ [صحیح بخاری، الایمان:۱۵]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیاہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کاحصہ ہے۔‘‘ اس کے برعکس ہروہ قول وعمل اورعقیدہ نواقصِ ایمان سے ہے جورسالت اورصاحب رسالت سے بغض اوران کے متعلق طعن وتشنیع پرمشتمل ہو۔کیونکہ اس سے کلمۂ شہادت کے دوسرے جزو کا انکارلازم آتاہے اورایسا کرنے سے وہ گواہی کالعدم ہوجاتی ہے جس کے ذریعے انسان اسلام میں داخل ہوا تھا۔ ہمارے نزدیک اس انکاروتنقیص کودوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے ۔
٭ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت ستو دہ صفات کوہدف تنقید بنانا۔
٭ آپ کی لائی ہوئی شریعت کے کسی حصہ کاانکاریاا س پرطعن کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کوہدف تنقید بنانے کامطلب یہ ہے کہ آپ کے صدق وامانت اورعفت وعصمت کے متعلق حرف گیری کرنا یا آپ کی ذات عالی صفات کے ساتھ کسی بھی پہلو سے استہزاء وتمسخر کرنا یا آپ کوگالی دینا اور آپ کوبرا بھلا کہنا الغرض آپ کی شخصیت پر کسی بھی پہلو سے اعتراض کرنا اس میں شامل ہے ۔لیکن اہل مغرب نے یہودی لابی اور امریکی استعمار کے اشارے پراسلام اوراہل اسلام کے خلاف مذموم تہذیبی جنگ شروع کررکھی ہے ۔اس سلسلہ میں انہوں نے تہذیب وشائستگی کی تمام حدود کو پامال کر دیا ہے۔ پہلے قرآن کریم کی بے حرمتی کرکے پوری امت مسلمہ کے جذبا ت کو مجروح کیااور اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے مذموم خاکے اورکارٹون شائع کرکے شرمناک حرکت کرڈالی ہے۔ اس سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکا ت کومجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کاکارٹون بناکر آپ کی پگڑی یاٹوپی میں بم نصب کرکے دنیا کویہ باور کرایا جائے کہ نعوذب اللہ مسلمانوں کے اولین رہنما دہشت گردی اور تخریب کاری کے علمبردار ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ جرم معافی کے قابل نہیں کہ معذرت کر نے سے اس کی تلافی ہوجائے بلکہ ایسے لوگ قابل گردن زدنی ہیں ۔مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ نے اپنے ۱۰فروری کے خطبہ میں بجافرمایا ہے کہ توہین رسالت کے مجرمین کوقرار واقعی سزادی جائے، کیاآزادی اظہار کامطلب یہ ہے کہ اسلام اوراہل اسلام کی توہین وتضحیک کی جائے ،انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی سطح پرایسے قوانین بنائے جائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر مقدسات اسلام کی توہین کوجرم قرار دیا جائے اوراس کاارتکاب کرنے والوں کوقرارواقعی سزا دی جائے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں توہین رسالت کاجرم معمولی نہیں ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’بلاشبہ جولوگ اللہ اوراس کے رسول کواذیت دیتے ہیں ،ان پر دنیا وآخر ت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت اورقیامت کے دن ان کے لئے رسواکن عذاب مہیا کیاجائے گا ۔‘ ‘ [۳۳/الاحزاب :۵۹]
غزوۂ تبوک کے سفر میں منافقین نے آپس میں اسلام اوراہل اسلام کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ،کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبذریعہ وحی اس کی اطلاع مل جاتی ،جب آپ ان سے طلبی فرماتے توکہتے کہ ہم توصرف سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ہنسی مذاق کررہے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دل بہلانے کے لئے صرف ایسی باتیں ہی رہ گئی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کوملوث کیاجائے ،کسی اور چیز سے تمہاری دل لگی نہیں ہوتی، قرآنی آیات ملاحظہ کریں: ’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں (کہ کیاتم ایسی باتیں کرتے ہو) توکہیں گے ہم توصرف مذاق اوردل لگی کررہے تھے۔ کہہ دیجئے: کیا تمہاری ہنسی اوردل لگی اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی ہوتی ہے؟ بہانے نہ بناؤ تم واقعی ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔‘‘ [۹/التوبہ :۶۵۔۶۶]
اس نصِ صریح سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورشعائر اسلام کو اپنے مذاق کاموضو ع بنانا بہت خطر ناک عمل ہے۔ اس راستہ پر چل کر انسان براہ راست کفر تک پہنچ سکتا ہے۔ کتب حدیث میں متعدد ایسے واقعات مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخی کے مرتکب کوفورًا جہنم واصل کردیا گیا اوراسے کیفر کردارتک پہنچانے والے سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کیاکرتی تھی ،اسے ایک شخص نے قتل کردیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کابدلہ ،قصاص یادیت کسی بھی صورت میں نہیں دلوایا ۔ [ابوداؤد،الحدود:۴۳۶۲]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کی تفصیل بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک نابینا شخص تھا، اس کی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں دیتی اورآپ کی ذات کے متعلق حرف گیری کرتی تھی ۔اس کامالک نابینا شخص اسے منع کرتااور سختی سے روکتا تھا لیکن وہ اپنی ضد اورہٹ دھرمی پرقائم رہتی۔ ایک رات ایسا ہوا کہ وہ حسب عادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیا ں دینے لگی اورآپ کوبرا بھلا کہنا شروع کردیا تواس غیرت مند نابینے شخص نے گھر میں پڑی ہوئی کدال اٹھائی اور اسے اس لونڈی کے پیٹ پر رکھ کراوپر سے دباؤ ڈالا ،جس سے اس کاپیٹ پھٹ گیا اور وہ مر گئی۔ صبح کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی توآپ نے لوگوں کوجمع کر کے فرمایا: ’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کرکہتا ہوں کہ رات جوواقعہ ہوا ہے اس کا مرتکب سامنے آجائے۔‘‘ وہ نابینا شخص کھڑ اہوااور ہانپتاکانپتاگرتاپڑتارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ ! میں نے اسے قتل کیا ہے، اس قتل کی وجہ یہ تھی کہ لونڈی آپ کو گالیا ں دیتی تھی اورآپ کو برابھلا کہتی تھی ،میرے بار بار کہنے اور سمجھانے پر باز نہیں آتی تھی، اس کے بطن سے میرے موتیوں جیسے دوخوبصورت بیٹے بھی پید اہوئے ہیں ،آج رات اس نے پھر وہی نازیبا حرکت کرڈالی، مجھے غیرت آئی اورمیں نے اسے قتل کردیا ۔واقعہ سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سب گواہ رہو! اس کاقتل ضائع اور خون رائیگاں ہے، اس کاکوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا ۔‘‘ [ابوداؤ د، الحدود:۴۳۶۱ ]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ موقف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے اوراس کاخون ضائع ہے، چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ہم ایک دفعہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے کسی با ت پر آپ کوایک شخص کے متعلق غصہ آیا ،پھر آپ کا غصہ زیادہ ہونے لگا ۔میں نے عرض کیا: اگر آپ مجھے اجازت دیں تواسے قتل کردوں؟ جب میں نے اسے قتل کرنے کا عندیہ دیا توحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجلس کوبرخواست کردیا ،جب لوگ منتشر ہوگئے توآپ نے مجھے بلایا اورفرما یا کہ اس وقت تونے کیاکہاتھا ،میرے ذہن سے یہ واقعہ محوہوچکا تھا ،ان کے یاد دلانے پر مجھے یاد آیا، آپ نے فرمایا کہ واقعی تونے اسے قتل کردیناتھا، میں نے عرض کیا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیتے تومیں نے ضرور اسے قتل کردیناتھا آپ اگر اب بھی مجھے حکم دیں تواسے کیفر کردار تک پہنچا سکتا ہوں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ منصب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپ کے حق میں گستاخی کرنے والے کوقتل کردیاجائے آپ کے بعد کسی اورکے لئے نہیں ہے ۔ [نسائی ،المحاربۃ : ۴۰۸۲]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاں یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنا ایک جرم ہے کہ اس کے مرتکب کوقرار واقعی سزادی جائے۔ اسے فوراً کیفر کردار تک پہنچا یاجائے ۔کعب بن اشرف یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز اشعار کہتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس کعب کو کون قتل کرے گا؟‘‘ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ! اس کام کو میں خود سرانجام دوں گا، چنانچہ اسے قتل کردیا گیا جس کی تفصیل بخاری شریف میں ہے۔ [صحیح بخاری، المغازی: ۴۰۳۷]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق بھی روایات میں ہے کہ انہوں نے بھی اپنے غلام کوقتل کرادیاتھا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخی کاارتکاب کرتاتھا۔ [مصنف عبدالرزاق،ص:۳۰۷،ج۵]
لیکن ہمارے ہاں جو احتجاج کی صورت ہے کہ نجی اورسرکاری املاک کونقصان پہنچایا جائے، اسے کسی طور پر بھی مستحسن قرار نہیں
دیاجاسکتا ،البتہ جن ممالک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مشتمل خاکے شائع ہوئے ہیں ان کی مصنوعات کابائیکاٹ کیاجائے اورحکومت پاکستان کوچاہیے کہ ان ممالک سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرے اوراپنے ملک سے ان کے نمایندوں اور سفیروں کوواپس بھیج دیاجائے ،عوام الناس کوبھی چاہیے کہ اپنے غم وغصہ کااظہار ضرور کریں لیکن توڑپھوڑ اورنعرے بازی کی سیاست محض دکھلاوے کی چیزیں ہیں ان سے قطعی طور پر اجتناب کیا جائے، ایسے کام کرنے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اہل اسلام واقعی متشدّد اورتخریب کارہوتے ہیں۔ بعض اوقات تشدد پر مبنی اس قسم کے واقعات ایجنسیوں کے ذریعے سرانجام پاتے ہیں اورانہیں مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دیاجاتا ہے ۔بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ایک ناقابل معافی جرم ہے اوراس کے متعلق جس قدر بھی غم وغصہ کا اظہار کیاجائے وہ ہمارے ایمان کاتقاضا ہے لیکن توڑپھوڑسے اجتناب کرناچاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب