السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمام دنیا کے مطالع کو مکہ کے مطالع کے ساتھ مربوط کر دیا جائے تاکہ رمضان المبارک اور دیگر مہینوں کے بیک وقت شروع ہونے سے وحدت امت کا مظاہرہ کیا جا سکے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات فلکیات کے اعتبار سے محال ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہلال کے مطالع مختلف ہیں بلاشبہ اس بات پر علم فلکیات کے ماہرین کا اتفاق ہے اور جب مطالعہ مختلف ہیں تو پھر نقلی اور عقلی دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر علاقے کا اپنا لحاظ ہو۔
نقلی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
’’تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘
اگر روئے زمین پر بسنے والے دور دراز ملک کے باشندوں نے ہلال نہ دیکھا ہو اور اہل مکہ نے دیکھ لیا ہو تو آیت کے مخاطب وہ لوگ کیسے ہو سکتے ہیں جنہوں نے ابھی ہلال نہیں دیکھا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ» (صحيح البخاري، الصوم، باب قول النبی: اذا رايتم الهلال…، ح:۱۹۰۹ وصحيح مسلم، الصيام، باب وجوب صوم رمضان لروية الهلال، ح: ۱۰۸۱ (۱۸)
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر ہی روزہ رکھنا ترک کرو۔‘‘
اگر اہل مکہ نے چاند دیکھ لیا ہو، تو ہم اہل پاکستان اور ان کے پیچھے دونوں مشرقی جانب کے ملکوں کے باشندوں کے لیے روزے کو کیسے لازم قرار دے سکتے ہیں؟ جب کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ان کے افق پر ہلال طلوع نہیں ہواجبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو روئیت ہلال کے ساتھ مشروط قرار دیا ہے۔
جہاں تک عقلی دلیل کا تعلق ہے تو اس بارے میں وہ قیاس صحیح ہے، جس کا معارضہ ممکن ہی نہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ زمین کی مشرقی جہت میں فجر مغربی جہت سے پہلے طلوع ہوتی ہے، تو مشرقی جہت میں جب طلوع فجر ہو جائے، تو کیا مغربی جہت میں رہنے والے ہم لوگوں کے لیے بھی یہ لازم ہوگا کہ ہم کھانے پینے سے رک جائیں جب کہ ہمارے ہاں تو ابھی رات ہوگی؟ اس کا جواب یقینا یہ ہوگا کہ نہیں ہمارے لیے یہ لازم نہیں ہوگا اسی طرح جب مشرقی جہت میں سورج غروب ہو جائے اور ہمارے ہاں ابھی تک دن ہو تو کیا ہمارے لیے روزہ افطار کرنا جائز ہوگا؟ ہمارا جواب یقینا یہ ہوگا کہ نہیں، ہلال بھی مکمل طور پر سورج ہی کی طرح ہے۔ ہلال کا دورانیہ ماہانہ ہے جب کہ سورج کا دورانیہ یومیہ ہے اور جس ذات پاک کا یہ ارشاد ہے:
﴿أُحِلَّ لَكُم لَيلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُم هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُم كُنتُم تَختانونَ أَنفُسَكُم فَتابَ عَلَيكُم وَعَفا عَنكُم فَالـٔـنَ بـشِروهُنَّ وَابتَغوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُم وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى الَّيلِ وَلا تُبـشِروهُنَّ وَأَنتُم عـكِفونَ فِى المَسـجِدِ تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَقرَبوها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ ءايـتِهِ لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَّقونَ ﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے عورتوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا ہے، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے، سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے در گزر فرمایا اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو چیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے۔ (یعنی اولاد) اس کو (اللہ سے) طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے، پھر روزہ رکھ کر اسے رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔‘‘
اسی نے یہ بھی فرمایا ہے:
﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
’’تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘
لہٰذا نقلی و عقلی دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے اعتبار سے ہم ہر علاقے کے لیے وہ حکم لگائیں جو اس کے ساتھ خاص ہے اور اسے اس جیسی علامت کے ساتھ مشروط قرار دیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں بیان فرمایا ہے اور وہ ہے چاند، سورج یا فجر کی موجودگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب