سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) حدیث کی تحقیق

  • 11945
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2439

سوال

(12) حدیث کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں ہے کہ اگر میر ابندہ میری طرف ایک قدم آتا ہے تومیں دوقدم اس کی طرف آتاہوں ،اگر وہ میری طرف چل کر آتاہے تومیں اس کی طرف دوڑ کرآتا ہوں ۔صفات باری تعالیٰ کا حقیقی معنی مراد لینا ہی سلف صالحین کاعقیدہ اور طرز عمل ہے۔اس عقیدہ کی روشنی میں حدیث مذکورہ کاحقیقی معنی کس تناظر میں لیاجائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کوامام بخاری  رحمہ اللہ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے ۔حدیث میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق برتاؤ کرتا ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگروہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تومیں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اورجب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتاہے تومیں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتاہے تومیں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتاہوں اوراگروہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتاہے تومیں اس سے دوہاتھ قریب ہو جاتا ہوں، اگر وہ میری طرف چل کرآتاہے تومیں اس کی طرف دوڑ کرآجاتا ہوں ۔‘‘ [صحیح بخاری، التوحید: ۷۴۰۵]

یہ حدیث اﷲ تعالیٰ کی کئی ایک صفات پرمشتمل ہے اوراﷲ کی صفات دوطرح کی ہیں۔ ثبوتیہ اورسلبیہ

صفات ثبوتیہ :  سے مراد وہ صفات ہیں جواﷲ تعالیٰ نے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے لیے ثابت کی ہیں، جیسے علم اور قدرت وغیرہ۔

صفات سلبیہ :  سے مراد وہ صفات ہیں جن کی اﷲ تعالیٰ نے خودرسولصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کی نفی کی ہے، جیسے نیند اورتھکاوٹ وغیرہ، پھر صفات ثبوتیہ کی دواقسام ہیں:

1۔ذاتیہ :  ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ ہمیشہ متصف رہتا ہے، جیسے صفتِ علو اور صفتِ عظمت وغیرہ۔

2۔فعلیہ:  فعلیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی مشیّت سے وابستہ ہیں، اگر چاہے توانہیں کرے اوراگرنہ چاہے تونہ کرے، جیسا کہ اِسْتِوَائٌ عَلَی الْعَرْشِ اور  نَزُوْلٌ اِلٰی سَمَائِ الدُّنْیَا۔

                آخری قسم کی صفات کواﷲ تعالیٰ کے لیے اس کے شایان شان ثابت کیا جائے، اس میں تمثیل یاتکییف کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ حدیث مذکورہ میں جوصفات ہیں وہ ثبوتیہ فعلیہ ہیں۔ جواﷲ تعالیٰ کی مشیئت سے متعلق ہیں ۔شیخ صالح عثیمین  رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اورسلف صالحین اس قسم کی نصوص کوا ن کے حقیقی اورظاہری معنی پر ہی محمول کرتے ہیں۔ اوران صفات کواﷲ رب العزت کے شایان شان ثابت کرتے ہیں ان کے لیے کوئی تمثیل یاکیفیت کومتعین نہیں کرتے۔ اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کااپنے بندے کے قریب ہونے کوبیان کیاگیا ہے وہ اپنے بندے کے جب چاہے جس طرح چاہے قریب ہو سکتا ہے، باوجود اس کے وہ بلند وبالابھی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا آسمان دنیا کی طرف نزول اور اپنے عرش پر مستوی ہوناثابت ہے۔                           [القواعد المثلی، ص:۷۰]

                شیخ عبداﷲ غنیمان  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کااپنے بندے پرجودوکرم بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے بندے پربہت جلد متوجہ ہوتاہے اوراس پراپنافضل و کرم کرنے میں جلدی کرتاہے باوجود یکہ اس کی عبادت اس کرم وفضل کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، وہ اپنے علاوہ ہرچیز سے بے پروا ہے اوراس کے علاوہ ہرچیز اس کی محتاج ہے ۔   [شرح کتاب التوحید، صحیح بخاری ،ص:۲۷۱ج۱]

                                                یہ دونوں بزرگ سرزمین عرب کے نامور علما سے ہیں اوران کی تمام زندگی درس وتدریس میں گزری ہے، مؤخر الذکر تو سعودی عرب میں ہمارے دوران تعلیم مضمون توحید کے استاد تھے ۔اﷲ تعالیٰ ان پر کروٹ کروٹ اپنی رحمت فرمائے ،اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے میں نے اس حدیث کی وضاحت میں ان کی تشریحات کو ذکر کردیاہے ۔     [واﷲاعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:53

تبصرے