سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(194) نچلے ہو نٹ کے بال کترنا جا ئز نہیں

  • 11944
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1551

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا داڑھی کے بال کے اور مو نچھو ں کے کنا ورں کے با ل جائز ہیں ؟ کیا چہرے کے بال نو چنے اور صاف کرنے جا ئز ہیں ؟ ۔ اخو کم : عبد السلا م ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(عنفقہ) داڑھی بچہ کے بال لینے جا ئز نہیں ۔ عنفقہ نچلے ہو نٹ کے نیچے اکٹھے بالو ں کو کہتے ہیں ۔ داڑھی بچہ کے آ س پاس  کے بال لینے بھی جائز نہیں اور اسی طر ح چہر ے اور کا ن کی سید میں رخسا ر کے با ل لینے بھی جا ئز نہیں اور رخسار پر ابھر ی ہو ئی ہڈی اور باقی رخسا ر کے با لو ں اکھیڑنا جا ئزنہیں ہے ۔ یہ سب داڑھی کا حصہ ہیں جیسے کہ لغۃکے علماء نے تصریح کی ہے اور نبی ﷺ نے داڑھی کو معا ف کرنے کا حکم دیا ہے اور ان سب میں سے کسی کا اکھاڑنا یا کتر نا نبی ﷺ کے امر کی مخا لفت ہے ۔ اور نیل الا و طا ر کے حا شیہ ( 1؍ 143) میں ہے :

فا ہدہ : اما م احمد بن حنبل  سے چہر ے کے بال صاف کرنے کے با رے میں پو چھا گیا : تو فر ما یا : عو رتو ں کے لئے کو ئی حرج نہیں ہے اور مردوں کے لئے مکروہ سمجھتا ہوں۔ او رالمجو ع ( 1؍ 29) میں ہے : امام غزالی کہتے ہیں : داڑھی میں کمی کرنا اور زیا دتی کرنا مکروہ ہے اسطرح کہ داڑھی کے سا تھ کنپٹی کے با ل ملا لئےجا ئیں ۔ یا جب سر مو نڈے تو سا تھ داڑھی کے بال بھی کچھ مو نڈلئے جائیں ۔ اور اسی طر ح داڑھی بچہ کے آ س پا س کے با ل نو چنا مکر وہ ہے انمیں کسی قسم تبدیلی نہ کر ے ۔

امام احمد  کہتے ہیں : داڑھی کے نیچے حلق کے بال مو نڈنے اور مٹھی سے زاہد کترنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

امام غزالی  احیا ءالعلو م ( 1ٓ؍ 245) میں اور امام نووی المجموع ( 1؍291 ) میں اور شرح مسلم ( 1ؔ؍ 129) میں اور اما م الشوکانی نیل الاو طا ر ( 1؍143) میں کہتے ہیں :

داڑھی میں با رہ خصلتیں مکروہ ہیں ان میں بعض کراہت میں بعض سے زیا دہ سخت ہیں :

 1۔ کا لا خضا ب لگا نا ۔

2۔ گندھک وغیر ہ  سے جلد ی سفید ریش بننے کے لئے داڑھی سفید کرنا تاکےکبر سنی کا مظا ہر ہ کر کے ریا ست حا صل کرسکے ۔

3۔ نئی نکلتی ہو ئی داڑھی کو اکھیڑنا اور استر ے سے اسکی تخفیف کرنا بن داڑھی پن کو تر جیح دیتے ہوےاپنے آ پ کو بچہ اور خو بصو رت ظاہر کرنے کے لئے اور یہ سب سے زیادہ قبیح خصلت ہے  ۔

4۔ داڑھی میں سےسفید با ل اکھیڑنا ۔

5۔ بنا وٹ اور زینت کے لئے اندازے سے زیا دہ اسکی سیٹینگ کرنا تا کہ عو رتو ں وغیر ہ کو اچھا لگے ۔

6۔ کمی بیشی کرنا ۔

7۔ داڑھی کو پر ا گند ہ چھو ڑنا تا کہ اپنے آپ کو زاہد اور بے پر واہ ظاہر کرے ۔

8۔ اسکو لٹکانے میں تصنع سے کام لینا ۔

9۔ خو د پسند ی کے لئے داڑھی کو دیکھتے رہنا ، جو انی کے دھوکے سے یا بڑھا پے کے فخر سے ۔

10 ۔ داڑھی ہی کو گرہ دینا جیسے کہ ابو دا ؤد میں رو یفع بن ثابت کی جید الاسنا د حدیث سے ثابت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ مجھے رسو ل اللہ ﷺ نے فرما یا : اے رویفع !شاید تیر ی زندگی لمبی ہو تو لو گو ں کو یہ بتا دینا کہ جو داڑھی کو گرہ دیتا ہے ، ی وتر (کمان کی تندی ) کا قلا دہ گلے میں ڈالتا ہے یا جا نو ر کی لید یا ہڈی سے استنجاء کرتا ہے تو محمد ﷺ اس سے بیزار ہے ۔

11۔ داڑھی منڈانا : ہا ں اگر عورت کی داڑھی نکلے تو اسے صاف کرسکتی ہے ۔

12۔ داڑھی کو زرد رنگ دینا اتبا ع سنت کے لئے نہیں اپنے آپ کو صا لحین سے مشا بہ کر نے کے لئے ۔

13۔ میں کہتا ہوں کہ ہر وقت داڑھی میں کنگھی کرتے رہنا بھی منع ہے جیسے  کہ حدیث میں آیا ہے : ( نھینا عن کثیرمن الا رفا ہ )) ( نسائی 8؍ 185 رقم : 5239)

ہمیں زیادہ کنگھی کرنے سے منع فرما یا ہے )

14۔ ہر وضو ء کے بعد کنگھی کرنا جیسے بعض صوفی کرتے تھے ۔

جاننا چاہیے کہ داڑھی کی شرعی اور لغوی لحا ظ سے حد ہے جس سےیہ بتہ چلتا ہے کہ داڑھی کی حد یہاں تک ہے اور اسے لینا جا ئز نہیں ۔

شا ہ ولی اللہ الدھلو ی  مسا ئل اللحیہ ص ( 29 ) میں کہتے ہیں کہ طوالت میں داڑھی کی حد داڑھی بچہ ( نچلے ہو نٹ کے بال  ) سے ٹوڑی کے نیچے تک اور عرض میں رخسا روں کے بال یعنی چہر ے کے دو نو ں طر ف کے بال کنپٹی کے بالو ں سمیت نچلے جبڑے کے نیچے تک کے با لوں تک یہ سب داڑھی ہی کہلا تی ہے ۔

اور لسا ن العر ب میں ہے : ابن سید کہتے ہیں : داڑھی رخسا روں اور ٹو ڑی پر اگنے والے بالو ں کا جا مع نام ہے ۔

اور تاج العر وس اور قامو س میں کہا ہے : داڑھی وہ ہےجو رخساروں اور ٹوڑی پر اگیں اور یہ چہرے کے دو نو ں طر ف اور ٹو ڑی پر اگنے والے بالو ں کا نام ہے ۔

تو اس سے داڑھی کی طو ل وعر ض میں حد معلو م ہو گئی ۔ 

اسکا عرض چہر ے کے دونوں طر ف رخسا روں اور کنپٹی کے با ل ہیں نچلے جبڑے کے نیچے اگے ہوئے بالوں تک ۔ اور لمبا ئی اسکی دا ڑھی بچہ کے با لو ں سے لیکر ٹوڑی کے نیچبے اگے ہوئے بالوؔن تک یہ سب لغت میں داڑھی ہے اور شریعت نے داڑھی کی حد بندی میں لغت می مو افقت کی ہے اور اسکی حدود میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ۔ بلکہ ( وفرواللحی )  ۔۔ کہکر اسے بڑھانے اور جیسی اگی ہےاسی حالت پر کچھ بھی زائل کئے بغیر باقی رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ کیو نکہ اسکی خلقت میں کچھ بھی تبدیلی حرام ہے ۔

تو اس سے بیانے سے ثا بت ہو ا کہ جو ( متفقھہ ) رخسا روں کے بال لینے وغیرہ کو جا ئز کہتے ہیں انکا قول باطل ہے ۔ جیسے تا تا ر خا نیہ میں ہے ۔ اور اسی طرح جو کترنے کو جا ئز سمجھتے ہیں مراجعہ کریں ( ادلة تحریم حلق الحلیہ ص( 83)

اور سبا لین : اور یہ مو نچھوں کے دونو ں کنا روں کو کہتے ہیں اسے چھو ڑنےمیں حرج نہیں جیسے کہ عمر ﷜ کرتے تھے ۔ اور انکے کترنے میں کو ئی حرج نہیں ۔ اما م بہقی ہےیہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے جیسے کہ ادلہ تحریم اللحیہ ص( 73 ) میں ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص427

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ