سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(193) مو نچھیں کترنا سنت ہے

  • 11943
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1832

سوال

(193) مو نچھیں کترنا سنت ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مونچھوں کے بارے میں سنت کیا ہے ؟ مو نڈنا ’ نو چنا یا کتر نا ۔ ہمیں فتو یٰ دیں ۔ اللہ تمہیں اجر دے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جان لو کہ احا دیث میں مونچھوں کے با رے : ( احفاء ’ جز ’ قص ’ الا خذ ’ نھک ’ حلق ) کے الفا ظ آے ہیں ۔

جیسے کہ بخا ری ( 2؍875) میں ابن عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرما یا :

«انھکو ا لشو ارب واعفو اللحیٰ »

     ’’ختم کر و مو نچھو ں کو اور معاف کر و داڑھیو ں کو ۔‘‘

 اور اسی طر ح ابن عمر سے مرفو عا ًُ روایت کرتے ہیں :

«خا لفو االمشرکین  او فرو اللحیٰ  زواحفو االشوارب»

’’مشرکو ں کی مخا لفت کر و ’ داڑھیا ں بڑھا ؤ اور مونچھیں اچھی طر ح مو نڈو۔‘‘

اور اسی طرح ابو ہریرہکی روایت لائے ہیں :  فطر ی خصا ئل پا نچ ہیں یا  پا نچ فطری خصائل میں سے ہیں : ختنہ ، استر ااستعما ل کرنا ، بغل کے بال اکھیڑنا ، ناخن کتر نا اور مونچھیں کترنا ۔

ابن عمر سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا : فطر ت سے ہے زیر نا ف بال مو نڈنا، ناخن کتر نا اور مو نچھیں کترنا ’’

مسلم ( 1؍ 29 )  میں لائے ہیں : ابو ہریرہ سے روایت ہے رسو ل اللہ ﷺ نے فرما یا : مو نچھیں کا ٹو ، داڑھیا ں لٹکا ؤ ، مجو سیو ں کی مخا لفت کر و ’’

مغیر بن شعبہ سے روایت ہےایک رات میں رسول اللہ ﷺ کا مہمان بنا آپ نے پہلو کو بھو ننے کا حکم دیا  پھر چھر ی پکڑکر اس سے کا ٹنے شروع ہو ئے پھر بلا ل نماز کی اطلا ع دینے آئے چھر ی پٹک دی اور کہا اسےکیا ہو اس کے ہا تھ خاک آ لو د ہو ں ۔ انکی مو نچھیں بڑھی ہو ئی تھیں ۔ پھر مجھے کہا کہ مسواک رکھکر تری مونچھیں کترنا ہوں یا فر ما یا : مسو اک رکھکر کتر لے ۔ (تر مذی 2؍ 5 ) ابوداؤد ( 1؍38 ) رقم ( 187 ) طحا وی ( 2؍397) المشکا ۃ ( 2؍367)

اور احمد ، نسا ئی اور تر مذی زید ابن ارقم ﷜ سے لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا :

«من لم یاخذمن شا ربہ فلیس منا ُ »

’’ جس نے مو نچھیں نہ لیں وہ ہم میں سے نہیں ھے۔‘‘

’’حلق‘‘ کا لفظ صریحا ً حد یث میں نہیں آیا ہے لیکن بعض اہل  علم نے لفظ   ’’ الا حفا ء ‘‘سے حلق مراد لیا ہے ۔

   پھر اہل علم نے ان حدیثوں کی وجہ سے اختلاف کیا ہے کہ مو نڈنا افضل ہے یا کترنا؟

تو اکثر علماء کہتے ہیں کہ احفا ءافضل ہے اور احفاء کا معنی یہ ہے کہ سا ری مو نچھیں ختم کر دے یہا ں تک ہو نٹ مو نڈے ہوئے معلوم ہو ں ۔ انکے دلائل یہ ہیں :

اول : احفاء کا لفظ صحیجن میں آیا ہے اور قص کا لقظ بھی احفاء پر حمل ہے  ۔

دوم : اکثر صحا بہ احفا ء کرتے تھے جیسے طحا وی نے ( 2؍ 308 ) میں روایت کیا ہے ، اسما عیل بن خالد سے کہ میں نے انس بن مالک اور واثلہ بن الاسقع کو دیکھا وہ مو نچھیں صا ف کرتے تھے اور داڑھیاں معا ف کرتے تھے اور پیلا رنگ دیتے تھے ۔

اسما عیل کہتے ہیں کہ : اور مجھے حدیث سنائی عثما ن بن عبید اللہ بن رافع المدنی نے وہ کہتے ہیں : میں نے دیکھا عبداللہ بن عمر ، ابو سعید خدری ، ابو اسید الساعدی ، رافع بن خدیج ، جابر بن عبد اللہ ، ابو ہریر ہ ، انس بن مالک کو اور سلمۃ بن الا کو ع کو وہ اسی طر ح کر تے تھے ۔

اور ایک روایت میں ہے : میں ابو سعید الخدری ، ابو اسید ، رافع بن خدیج ، سہل بن عبد اللہ ، عبداللہ بن عمر ، جا بر بن عبد اللہ اور ابو ہر یر ہ ( رضی اللہ عنھم ) کو دیکھا وہ مو نچھیں صا ف کر تے تھے ۔

ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ مو نچھیں صا  ف  کر تے تھے یہاں تک کہ جلد کی سفیدی دیکھی جاتی ۔

عقبہ بن مسلم سے روایت ہے میں نےکسی کو ابن عمر سے زیا دہ مو نچھیں صاف کرنے والا نہیں دیکھا ۔ وہ اسے صا ف کرے تھے یہا ں تک کہ جلد نظر آ تی ۔

تو یہ رسو ل اللہ ﷺ کے صحا بہ آپ  ﷺ کی سنت کو لوگو ں میں زیا دہ جا ننے والے ہیں نہ مو نچھیں صاف کرتے تھے تو ثا بت ہو تا ہے کہ مونچھو ں میں سنت یہی ہے۔

اما م ما لک اور محقیقن کا  مذہب ہےکہ کتر نا افضل ہے وہ ان دلائل سے استد ال کر تے ہیں ،:

اول : کترنے کے دلا ئل صحیح اور بکثر ت ہیں اور یہ ( کترنا ) احفا ء  نہیں ہے )

دوم :  وہ حدیث جسے ابو داؤد ،ترمذی اور طحا وی نے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کیا ہے جس کا ذکر ابھی گزرا صریح دلیل ہے مو نچھوں کو مسو اک پر قینچی سے کتر نے کی اور مسواک کے نیچے رکھنے کی ۔ اور بز ار عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث لا ئے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا اسکی مو نچھیں بڑھ چکی تھی تو فر ما یا : میر ے پا س قینچی اور مسواک لاؤ  تو مسو اک اسکے کنارےپر رکھا اور جو (بال ) اس سے آ گے بڑھ رہے تھے اسے کتردیا ۔ جیسے کہ تحفۃالا حو ذی ( 4؍11) میں ہے ۔

تیسر ی : وہ حدیث  جسے طبر انی نے الکبیر ( 1؍ 4 ) میں نقل کیا ہے عامر بن عبد اللہ بن الز بیر سے کہ عمر جب عصہ ہو تے تو اپنی مو نچھو ں کو تاؤ دیتے تھے اور پھو نک مارتے تھے  ۔ اور اسکی سند صحیح ہے ۔

چو تھی : شر جیل بن مسلم الخو لانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے پا نچ صحا بہ رضی اللہ عنھم کو دیکھا وہ مو نچھیں کتر تے تھے ۔

اور ایک روایت میں : ( یقمو ن ) لفظ آتا ہے اور داڑھیاں معاف کرتے اور زرو رنگ دیتے تھے ۔

1۔ ابو اما مہ با ہلی ۔ 2۔ عبد اللہ بن بسر  3 – عتبہ بن عبد السلمی  4 ۔ الحجاج بن عامر اشما لی  6 – المقدام بن معد یکرب الکندی ۔ وہ مو نچھو ں کو ہو نٹ کے کنا رے پر کتر تے تھے ۔ (بہیقی : 1؍ 151 ) مراجعہ کریں آ داب الزفا ف ص ( 137 ) اور یہ ( الحفا ء ) اور النھک ) تا ویل ہو نٹ کے کنا رے پر کا ٹنے سے کرتے ہیں جڑسے کاٹنے پر نہیں ۔

جیسے کہ اما م نو وی نے المجو ع ( 1؍ 287) میں کہا ہے اور شرح مسلم ( 1؍ 129 ) میں کہا ہے ‘‘ ( مو نچھیں ) کترنے کی حد میں افضل یہ ہےکہ جو ہو نٹ کے کنا رے پر ظاہر ہو ں ، جڑسے کا ٹنا نہیں اور جن روایتو ں میں ( احفو الشو ارب)۔ آ یا ہے اسکا معنی کتر وجو ہونٹ کے کنا رے سےبڑھ جائیں ۔

پانچو یں : ایک حجا م نے نبی ﷺ کی مو نچھیں کتر ی تھیں ۔

( ابن سعد 1؍433 ۔ 449 ) کما فی تعلیق صحیح الجا مع ( 2؍ 1113 ) رقم (6533 )

اور اما م مالک ( جڑوں ) سے کتر نے والو ں کی تادیب فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مثلہ ہے ۔

اور امام مالک مو نچھو ں کو صا ف کرنے کو بدعت کہتے تھے لیکن امام بہقی کہتے ہیں کہ ‘‘ گو یا ( اما م مالک ) نے الحفا ء جس کا حدیث میں حکم ہےکو کترنے پر حمل کیا ہے ، مو نڈھنے پر نہیں ۔ اور انکا انکا ر حلق پر واقع ہے ، احفا ء پر نہیں ، اور ان سے رو ایت کرنے میں غلطی کی جس نے ان سے مطلقاً احفاء کا رد نقل کیاہے ۔ واللہ اعلم ۔

میں کہتا ہوں ، امام بہقی اشارہ کرتے ہیں کہ دونو ں امر جائز ہیں اور یہی حق  ہے جس کا ذکر ہم عنقریب کریں گے لیکن امام ما لک کے قو ل کی انہو ں نے جو تا ویل کی ہے وہ انکی روایت کا سا تھ نہیں دیتی کہ وہ اسے مثلہ کہتے ہیں تو احفا ء اور مثلہ ہو نے میں دونو ں ایک ہیں ۔

حاصل کلام یہ ہو ا کہ کتر نا اور صا ف کرنا دونو ں جائز ہیں جبکہ کتر نے کو صا ف کرنے پر ترجیح حا صل ہےدو وجوہ سے :

پہلی وجہ : اولاً اسکے بارے میں دلائل بکثر ت ہیں ،

ثا نیا ً : مو نچھوں کو شارب ( پینے والا ) اس لئے کہتے ہیں کہ یہ پینے و الے کے سا تھ پینے میں شریک ہو تے ہیں اور ہو نٹو ں سے تجا وز کرنے والے بال کتر لئے جائیں تو وہ پینے والی چیز میں نہیں لگتے ۔

دوسری و جہ : کتر نے میں زینت بھی باقی رہتی ہے اور اتباع سنت ہے ۔۔ اور یہ صا ف کرنے میں نہیں اور اسکے ساتھ ہم صاف کرنے کو بھی جائز کہتے ہیں ۔

اسی لئےتحفۃالا حو ذی ( 4؍ 10 ) میں کہا ہے : طبر ی احفا ء اور قص میں اختیار کی طرف  گئے ہیں اور کہتے ہیں : سنت سے دونو ں امور پر دلا لت ہو تی ہے قص بعض مو نچھوں کو لینے پر دلالت کرتا ہے اور الحفا ء سا ری مو نچھوں کو لینے پردلالت کرتا ہے او ردونو ں ثا بت  ہیں تو جو چاہے اختیا ر کر سکتا ہے ۔

حا فظ ابن حجر کہتے ہیں : احا دیث مر فو عہ سے اکٹھے دو نو ں امو ر کے ثا بت ہو نے میں طبری کا قو ل راجح ہے ۔ پھر اشا رہ کیا ہے قص کے اختیا ر کرنے کو احفا ء پر ۔

مو نچھو ں کے معا ف کرنے کے با رے میں الشہب کے جواب میں امام مالک نے فرما یا : جب ان سے مو نچھیں مو نڈنے والے کے بارے میں پو چھا گیا : ‘ ‘ میر ے خیال  میں اسے سخت سزا دینی چا ہیے اور مو نچھیں صاف کرنے والے کے با رے میں کہا : ‘‘ یہ بدعت لو گو ں میں ظاہر ہو گئی ہے ’’ ۔ جیسے کہ فتح الباری ( 1؍ 285۔ 186) میں ہے ۔

فتا ویٰ صالح العثیمین میں ہے : افضل مو نچھو ں کا کتر نا ہے جیسے کہ سنت میں آ یا ہے احفا ء اس طر ح کہ ہو نٹو ں کے قریب بال کتر دئےجا ئیں تا کہ ہو ظا ہرہو جا ئے یا احفاء اس طر ح کہ سا ری مو نچھیں کتر دے تا کہ صاف ہو جا ئیں ۔

مو نڈنا مونچھوں کاسنت نہین ، بعض کا اسے قیا س کرنا حج وعمر ے میں سر کو مونڈنے پر تو یہ نص کے مقابلے میں قیاس ہےاس کا اعتبار نہیں کیا جا ئیگا ۔

اسی لئے امام مالک نے مو نڈنے کے بارے میں فر مایا : یہ بدعت ہے جو لوگو ں میں  ظاہر ہو گئی ہے ، سنت سے جو ثا بت ہو اس سے نکلنا منا سب نہیں ۔ سنت کی تا بعداری میں ہدایت ، صلا ح ، سعا دت اور فلا ح ہے الخ ۔

میں کہتاہو ں : یہ قیا س اما م طجا وی نےمعا فی الاثار ( 2؍208 ) میں ذکر ہے۔

اگر آپ کہیں : کہ صحیح حدیث میں آیا ہے محمد بن عبد اللہ بن یزید روایت کرتے ہیں سفیا ن بن عیینہ سے وہ زہر ی سے وہ سعید بن المسیب سے وہ ابو ہریر ہ سے مر فو عا ً : فطر ی مسا ئل پانچ ہیں اور اسمیں مو نچھو ں کا  حلق ہے ۔‘‘

تو اسے آپ کیسے بدعت کہتے ہیں ؟۔

تو ہم کہتے ہیں کہ ہم سنن النسا ئی الصغریٰ  اور الکبر یٰ دونو ں میں کتاب الطہا رۃ اور کتا ب الفطر ۃ والزینۃ میں خوب تلاش کیا ہمیں ان دونوں میں ‘‘ حلق’’ کا لفظ نہیں ملا ۔ یہ لفظ حافظ ابن حجر نے فتح البا ری ( 1؍ 285) میں ذکر کیا ہے اور اسے نسا ئی کی طر ف منسو ب کیا ہے پھر اس مے شا ذ ہو نے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

شایداسکی وجہ نساءئی کے نسخو ں کا اختلا ف ہو ، اسکے بعض نسخو ں میں ‘‘ قص الشارب ’’ اور  بعض میں ’’ تقصیر الشارب‘‘ہے اور شاید کسی میں ‘‘ حلق الشارب ’’ ہو لیکن ہما رے مطبوعہ نسخوں میں نہیں پا یا جا تا ۔

اور الشیخ نے اور اء الغلیل ( 1؍ 112 رقم : 73 ) میں اس طر ف اشارہ کیا ہے : اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مونڈنا بدعت ہے جو لوگوں میں ظا ہر ہو گئی ہے ’’ دیکھیں زاد المعا د ( 1؍ 62) نیل الاوطا ر ( 1؍ 141) المو طا ( 712 )

اور داڑھی منڈانے کی حرمت کے دلا ئل ص( 72)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص422

محدث فتویٰ

تبصرے