سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(192) بچیو ں کے ختنے کا حکم

  • 11942
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2652

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سخص فتویٰ دیتا ہے کہ عورتوں کے ختنے میں کچھ بھی ثابت نہیں بلکہ یہ بدعت ہے ’ نبی ﷺ سے اس مے بارے میں کچھ بھی منقو ل نہیں ’ کیا یہ فتو یٰ صحیح ہے ؟ ۔    اخو کم علی حیدر ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلم کے لئے جا ئز نہیں ہے کہ وہ ایسا فتو یٰ دے جو وہ جا نتا نہ ہو اور جو بغیر علم کے فتو ی دے تو اسکا گنا ہ فتو ی دینے والے پر ہو گا ’ مسلمانو ں کے امو ر کے والیوں پر فر ض ہے کہ ایسے مفتیوں کو منصب افتاء سے معزول کردیں ۔ ائمہ اربعہ وغیر ہ کے اتفاق سے عو رتو ں کے ختنے می مشروعیت ثا بت ہے ۔

 اس باب میں متعدد حدیثیں آئی ہیں ہم تفصیل سے ذکر کرتے ہیں :

اول حدیث : عا ئشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرما یا :

« اذا جا وزا الختا ن الختا ن فقد وجب الغسل »

’’ جب تجا رز کر جائے ختنہ شدہ  (عضو) دوسرے ختنہ شدہ ( عضو ) سے تو غسل فر ض ہے گیا ۔ ‘‘

اور ایک روایت میں ہے : (( اذا لتقی الختا نا ن )) ( جب دو ختنہ شدہ ( اعضا ء ) ملیں ) بخاری : 1؍ 43 ) مسلم ( 1؍ 156) ابو داؤد ’ترمذی (1؍ 34 )

 شا رحین کہتے ہیں : ختانا ن : ختا ن مرد کا اور عو رت کا ۔ مر د اس سے ہے کا ٹی جانے والی جگہ ذکر سے ملے فرج عو رت کی کا ٹی جانے والی جگہ کے ساتھ ۔

یہ حدیث صحیح واضح دلا لت کرتی ہے اس مسئلے پر ۔ 

دوسر ی حدیث : ام عطیہ الانصا ری یہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عو رت مدینے میں ختنہ کیا کرتی تھی تو اسے نبی ﷺ نے فرما یا :

« الا تنھکی فان ذلک احطی ٰ للمراۃ واجب الی البعل»

’’ کاٹنے میں   مبا لغہ مت کریہ عو رت کے لئے زیا دہ حظو ظ آور ہے اور خا وند کو زیا دہ محبو ب ہے۔‘‘

ابو دا ؤد ( 2؍ 368)اور یہ حدیث کثر ۃ شوائد کی وجہ سے صحیح ہے ۔ اسے الشیخ نے الصحیحہ ( 2؍ 353) میں ذکر کر کے کہا ہے : روایت کیا اسے دو لاپی ( 2؍123) نے خطیب نے التا ریخ ( 5؍ 327 ) میں انس بن ما لک سے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ام عطیہ کو فرما یا :

«ذا خفضت فا شمی ولا تنھکی ’ فا نہ اسریٰ للوجہ واحطیٰ للزوج»

’’جب تو کاٹ کر نیچے کرتی ہے تو آزما لے اورمبا لغہ مت کر یہ چہرے میں گردش خون زیا دہ کرنے والا اور خا وند کے لئے زیا دہ حظوظ آور ہے ‘‘ ہیثمی نے المجمع ( 1؍ 172 ) میں کہا ہے : اور اسکی سند حسن ہے ۔

ابو نعیم نے تا ریخ اصبہا ن ( 1؍ 245) میں نکا لا ہے انس سے دوسر ی سند کے سا تھ اور حاکم نے ( 3؍ 525) میں نکا لا ہے ۔

تیسری حدیث : ابن عباس سے روایت ہے :

« الختان سنته للرجا ل مکرمة للنساء »

’’ختنہ مردو ں کے لئے سنت ہے اور عو رتو ں کے لئے باعث عزت ہے ۔‘‘

بہقیی ( 8؍334 – 325 ) مو قو فاً ومرفو عا ً ۔

پھرکہا کہ یہ سند ضعیف ہے اور موقوف ہی محفوظ ہے ۔

چو تھی حدیث : ابن عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ  نبی  ﷺ انصار عو رتوں پر داخل ہو ئے اور فرما یا : اے انصا ر کی جما عت بھر پور مہندی لگا ؤ  ’ ختنے نیچے کرو اور مبا لغہ مت کرو ’ یہ تمھاری بیو یوں کے لئے زیا دہ حظو ظ آور انعا م کرنے  والوں کی نا شکر ی مت کر و  ۔ اسے بزار نے روایت کیا ہے ۔اسمیں مندل راوی ضیعف ہے ’ اسکی تو ثیق بھی کی گئ ہے ۔ باقی راوی ثقہے ہی جیسے کہ المجمح ( 5؍ 171 ) میں ہے’ یہ شوائد میں کفا یت کرتا ہے ۔

پانچویں حدیث : حسن  سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عثما ن بن ابی العا ص کو کھانے کی دعوت دی گئی ’ انہیں کہا گیا آ پ جانتے ہیں یہ کیا ہے ؟ یہ لڑکی کا ختنہ ہے انہوں نے کہا : یہ ختنہ ( ختنے کی دعوت ) ایسی چیز ہے جو ہم نے نبیﷺ کے زما نے میں نہیں دیکھی اور کھانے سے انکا ر کر دیا ہے ۔

طبرانی کبیر ( 3؍ 12) احمد ( 4؍ 217 ) ہیثمی نے المجمع ( 4؍60 ) میں ذکر کیا – سند اچھی ہےدیکھیں الصیحہ ( 2؍ 457)  

چھٹی حدیث : ام المہاجر سے روایت ہے : میں اور کچھ لڑکیا ں روم سے قیدی بنیں ’ عثما نے ﷜ نے ہم پر اسلا می پیش کیا تو میر ے اور ایک دو سر ی کے علا وہ باقی مسلما ن نہیں ہو ئیں ۔ تو عثما ن نے فر ما یا :

« اذھبو ھما فاخفصو ھما و طھر وھما لکنت اخدم عثمان»

’’انہیں لیجا ؤ انکا خفض ( ختنہ ) کرو اور نہیں پا ک کرو ’ میں عثما ن ﷜ کی خدمت کیا کرتا تھا ۔‘‘

اسے امام بخا ری نے الا دب المفر د بر قم ( 1245’ 1239 ) میں روایت کیا ہے ( باب خفض المراۃ و ختا نے الاما ء )

سا تو یں حدیث : ام علقمہ سے روایت ہے کہ عا ئشہ رضی اللہ عنھا کی بھتیجیو ں کا ختنہ کیا گیا ’ تو عا ئشہ کو کہا گیا ہم انکے لئے کسی کو نہ بلائیں جو انہیں مشغو ل کرے ۔ تو کہا : ہا ں عدی کو پیغا م بھیجا وہ ان کے پا س آیا ۔ تو گھر میں عائشہ رضی اللہ عنھا کا گزر ہو ا نہوں نے اسے دیکھا وہ گا رہا تھا اور مزے میں سر ہلا رہا تھا اور بہت بالو ں والا تھا تو کہنے لگیں ’ اف یہ شیطا نہے نکا لو اسے نکا لو اسے۔

اسکی سند حسن ہونے کا احتمال ہے بلکہ یہ حسن حدیث ہے کیو نکہ ام علقمہ کی العجلی اور ابن حبا ن نے تو ثیق کی ہے اور اس سے دو ثقہ روایت کرتے ہیں جہا لت اسکی ختم ہو جا تی ہے ۔ وللہ الحمدو المتہ ۔

آٹھویں حدیث : علی ﷜ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہاجر سا رہ کی تھیں تو انہو ں نےہا جر ابر اہیم ﷤کو دید ی اسما عیل اور اسحا ق نے دوڑ کا مقا بلہ کیا تو ا سمعیل نے انہیں بر ا بھلا کہا اور ابراہیم ﷤ کی گو د میں بیٹھ گئے ’ سا رہ نے کہا : اے اللہ کی قسم میں تین اونچی چیزیں اسکی ضرور تبدیلی کرو نگی تو ابراہیم ﷤ کز خو ف ہوا ’کہیں نا ک کا ٹ نہ ڈالے ’ یا کا ن نہ چھیدنہ دے کہا : تو اپنی قسم پوری کر نے کے لئے کچھ کرتی نہیں ؟ اسکی کان چیر دے اور اسکی خفا ض ( ختنہ ) کر تو یہ پہلا خفاض تھا ۔ 

امام ابن قیم نے تحفۃالمو دود ص( 131) میں کہا ہےکہ خفا ض عو رتو ں کے لئے مستحب ہونے میں اختلا ق نہیں ۔

علی القاری مرقا ۃ ( 8؍ 289۔ 310 ۔ 311۔ ) میں کہتے ہیں : عو رتو ں کا ختنہ کرامت ہے اور خزائۃ الفتا وی میں ہے : ’’ مر دوں کا ختنہ سنت ہے ‘‘اور عورتوں کے ختنےمیں اختلا ق ہے ادب میں کہا ہے : مکروہ ہے اور دوسری جگہ سنت کہا ہے اور بعض علما ء واجب کہتے ہیں اور بعض فر ض کہتے ہیں ۔

میں کہتاہوں : صحیح یہ کہ سنت ہے کیو نکہ نبیﷺ نے فر ما یا :

« الختا ن سنة للرجا ل و مکرمةللنسا ء »

’’ ختنہ مردوں کے لئے سنت اور عو رتو ں کے لئے عزت کا با عث ہے۔‘‘

امام احمد نے ابو لملیح کے والد سے حسن سند کے سا تھ روایت کیا ہے اور طرانی نے شداد طرانی نے شداد بن اوس سے روایت کیا ہے ’ ’ ۔

امام نو وی المجمو ع ( 1؍300 ) میں کہتے ہیں : ‘‘  ختنہ مردوں اور عورتوں کے لئے ہما رے نزدیک فرض ہے اور یہ اکثر سلف کا قول ہے اسی طرح خطا بی نے بھی حکا یت کیا ہے اور واجب کہنےوالو ں میں اما م احمد بھی ہیں اور مالک اور حنفیہ (مردوو عورت ) سب کے لئے سنت کہتے ہیں ۔ اور اسی طرح شرح مسلم (1؍ 128) میں ہے دیکھیں نیل الاوطار (1؍ 138 ) ۔

شیخ الاسلا م نے الفتا وی (21؍ 114 ) میں کہا ہے : ان سے پو چھا گیا عو رت کا ختنہ کیا جا ئے یا نہیں ؟ ۔

تو جواب یہ دیا : الحمد للہ : ہا ں اس کا ختنہ کیا جاے گا اور اس کا ختنہ یہ ہے کہ اسکی وہ جلد جو مرغ کی کلفی کی سی ہے اوپر سے کا ٹ دی جا ے ۔ رسول اللہ ﷺ نے خا فضہ سے کہا اندا ز سے کا ٹ مبا لغہ مت کر یہ چہر ے کی خو بصو رتی بڑھا تا ہے اور خا وند کے لئے حظو ظ آور ہے ۔ یعنی کا ٹنے میں مبالغہ مت کر ۔ اور یہ اسلئے کہ مر د کے ختنے سے مقصو د سر ذکر میں رکی ہو ئی نجا ست کی صفا ئی ہے اور عورت کے ختنے کا مقصد اسکی شہوت میں اعتدا ل پید ا کرنا ہے جب یہ ( کلفی والی ) بلا ختنہ ہو تی ہے سخت شہوت والی ہو تی ہے

اس لئے گا لی گلو چ میں کہا جا تا ہے : ( یا ابن القلفا ء 9) ( اے کلفی والی کے بیٹے ) کلفی والی مردوں کی طر ف بہت جھا نکتی ہے ۔                            

یہی وجہ ہے کہ تا ر اور فرنگی عورتو ں میں ہنییت مسلما ن عو رتو ں کے زنا زیا دہ پا یا جا تا ہے ۔ اگر ختنے میں مبالغہ ہو جا ئے تو شہوت کمزور ہو جا تی ہے اور مر د کا مقصو د کا مل ہو نہیں پاتا ۔ جب قطع بغیر مبا لغے ہو تو مقصود میں اعتد ال حا صل ہو جا تا ہے۔ واللہ اعلم ۔

تو عورتو ں کے ختنے کا احا دیث نبو یہ اور اقو ال ائمہ اور شرع حکمتو ں سے نا واقف ہی انکا ر کر سکتا ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص419

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ