سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) اللہ تعالی سے معافی مانگنا رسول اللہﷺ کا واسطہ دے کر

  • 11928
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1362

سوال

(11) اللہ تعالی سے معافی مانگنا رسول اللہﷺ کا واسطہ دے کر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاہمیں اپنے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ دیناچاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وسیلہ اس سبب کوکہتے ہیں جومطلوب تک پہنچائے ،وسیلہ کی دواقسام ہیں :

(الف)  وسیلہ تکوینی: اس سے مراد وہ طبعی سبب ہے جواپنی فطرت کے اعتبار سے مقصود تک پہنچائے، مثلاً: پانی انسان کو سیراب کرنے کاوسیلہ ہے، اسی طرح سواری ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کاوسیلہ ہے۔ یہ قسم مؤمن اورمشرک کے مابین مشترک ہے۔

(ب)  وسیلہ شرعی :اس سے مراد وہ شرعی سبب ہے جواس طریقہ کے مطابق منزل مقصود تک پہنچائے جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے ذریعے سے مقرر فرمایا ہو۔یہ وسیلہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ صلہ رحمی ، درازی عمر اوروسعت رزق کاوسیلہ ہے ،وغیرہ ۔

                قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی وسیلہ کی صرف تین صورتیں ایسی ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے، ان صورتوں میں اپنے گناہوں کی اﷲ سے معافی مانگتے وقت رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ دینا مشروع نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم براہِ راست اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں اورطلب حاجات کریں ۔وسیلہ کی جائز اقسام حسب ذیل ہیں :

٭  اﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ یاصفات کاوسیلہ دے کر دعا کرنا، مثلاً: یوں کہا جائے کہ اے اﷲ !تورحمن ورحیم ہے مجھ پر رحم فرما اور مجھے عافیت دے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اﷲ کے سب نام اچھے ہیں تو اس کے ناموں سے پکارو ۔‘‘    [۷/ الاعراف:۱۸۰]

٭  کسی نیک عمل کاوسیلہ دینا، مثلاً: اس طرح کہا جائے: اے اﷲ! میں تجھ پرایمان رکھتا ہوں، تیرے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتاہوں، ان نیک اعمال کے وسیلے سے میرے گناہ معاف فرمادے ۔

اصحابِ غار کاقصہ بھی اسی قبیل سے ہے جنہوں نے اپنے اعمال کاواسطہ دے کراﷲ تعالیٰ سے دعامانگی تووہ غار سے بحفاظت نکل گئے تھے۔ (متفق علیہ)

٭  نیک آدمی کی دعا کاوسیلہ: شریعت میں اس کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ کوئی مسلمان شدید تکلیف کے وقت کسی نیک آدمی سے دعا کامطالبہ کرے جیسا کہ رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت قحط کے وقت ایک اعرابی نے بارش کے لیے دعا کی اپیل کی تھی ۔  [صحیح بخاری ]

ان تین وسائل کے علاوہ جتنے وسیلے ہیں وہ ناجائز ہیں ،ان کاکتاب وسنت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے اﷲ سے دعا کرتے وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ نہیں دینا چاہیے۔ [واﷲ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:52

تبصرے