السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عذاب قبر کے متعلق وضاحت کریں کہ وہ دنیا والی قبر میں ہوتاہے ،اگراسی قبر میں ہوتا ہے توجن لوگوں کوخونخوار درندے کھاجاتے ہیں یاجوڈوب کریاجل کرمرجاتے ہیں، انہیں کہاں عذاب ہو گا، اس کاجواب تفصیل سے دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اﷲتعالیٰ نے انسانوں کے اعتبار سے چار عالم بنائے ہیں۔ پہلاعالم یہ ہے جہاں ان کی ارواح کوپیداکر کے وہاں رکھا گیا، جسے ’’عالم ارواح‘‘ کہتے ہیں۔ اس عالم میں ارواح کاذاتی جسم توہے لیکن ان کے قرار وسکون کے لیے کوئی وجود نہیں۔ دوسرا عالم جب انہیں عارضی طور پر قرار وسکون کے لیے ایک وجود دیاگیا، اسے ’’عالم دنیا‘‘ کہاجاتا ہے، پھر ایک مقررہ مدت کے بعد انہیں جسم سے الگ کردیاجائے گا ،اسے ’’عالم برزخ یا عالم قبر ‘‘سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔آخر میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ انسا نی ارواح کوان کے اجسام سے ہمیشہ کے لیے پیوست کردیاجائے گا، اسے ’’عالم آخر ت‘‘ کہتے ہیں۔جب انسان مرجاتاہے توا س کے لیے عارضی طور پر جزا وسزا کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔اگر بدکردار ہے تو سزا کا حق دار ہے، بنیادی طور پرسزا روح کودی جاتی ہے کیونکہ جسم اس روح کا آلہ کار تھا، اس لیے جسم کوبھی اس سزا کاپورا پورااحساس ہوگا۔ مرنے کے بعد جہاں انسان کاجسم پڑا ہے۔ وہی اس کی قبر ہے خواہ اسے کسی گڑ ھے (قبر )میں دفن کردیاجائے ،یادرندوں کے پیٹ میں ہویاکسی سمندر کی تہہ میں ہو،قرآن کریم نے بیان کیاہے کہ مرنے کے بعد انسا ن کوقبر ملتی ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اﷲ نے انسان کوپیدا کیا، پھر اس کی تقدیر مقرر کی ،پھر اس کے لیے راستہ آسان کیا، پھر اسے موت دی اورقبرمیں رکھا، پھرجب چاہے گادوبارہ اٹھالے گا ۔‘‘ [۸۰/عبس :۱۹تا ۲۲]
چونکہ اکثر انسانوں کوقبر ملتی ہے، اس لیے اکثر احکام اسی قبر سے متعلق ہیں ،ہمارے نزدیک جن لوگوں کویہ قبر ملتی ہے انہیں اسی دنیاوی قبر میں جزا وسزا کااحساس ہوگا، کوئی برزخی قبر اس کے علاوہ نہیں ہے۔ یہ ڈاکٹر مسعود الدین کراچی والے کی دریافت ہے جسے اَب یقین ہوچکاہوگا کہ اسی دنیا وی قبر میں جزاوسزا ملتی ہے ۔ہمارے اس دعویٰ (دنیاوی قبرمیں سزاوجزا ہوتی ہے )کی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ قبر ستان کے پاس سے گزرے توفرمایا کہ ’’یہ دونئی قبر یں کن کی ہیں ؟ انہیں سزادی جارہی ہے، ان میں ایک چغلیاں کرتاتھا اوردوسرا اپنے پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا، انہیں ان جرائم کی پاداش میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، الجنائر، ۱۳۷۸]
یہ حدیث صریح ہے کہ دنیاوی قبر میں ہی جزاوسزا کاسلسلہ جاری ہوتا ہے کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ٹہنی کے ٹکڑے انہی دنیاوی قبروں پرگاڑ کر فرمایا تھا: ’’امید ہے کہ ان کے خشک ہونے تک اﷲ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کریں گے۔‘‘ جن لوگوں کویہ قبر نہیں ملتی ہے ان کے لیے وہی مقام قبر ہے جہاں ان کے جسم کے ٹکڑے یاریزے پڑے ہیں ۔اس طرح عقل ونقل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور ان میں کوئی الجھن باقی نہیں رہتی ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب