سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) دائیں ہا تھ سے مسواک کرنا افضل ہے

  • 11923
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1236

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آدمی  مسواک دائیں ہاتھ سے کرے یا بائیں ہاتھ سے،شرعی حکم  اس میں کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے فتاویٰ( (108/21 میں کہتے ہیں: جب ان سے سوال ہوا  کہ مسواک کر نا دائں ہاتھ سے اولیٰ ہے یا اس کے بر عکس  اور کیا بائیں  ہاتھ سے مسواک کرنے والے پر انکار جائز ہے؟ افضل کون ساہے؟۔

تو انہوں نے جواب دیا:الحمدللہ رب العٰلمین۔افضل بائیں ہاتھ سے مسواک کرنا ہے، امام احمد نے اس پر تصریح کی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ ائمہ میں سے کسی نے مخالفت کی ہو اور یہ اس لئے کہ مسواک ’’اماطۃ الاذیٰ ‘‘کے باب سے ہے ہو یہ ناک صاف کرنے  جیسا ہے اور اسی طرح جس چیز میں اذیت والی  چیز کا ازالہ ہو اور یہ بائیں ہاتھ سے ہوگا جیسے استنجاء وغیرہ جس میں ازالہ نجاست ہے، بائیں ہاتھ سے ہوتا ہے اور ازالہ نجاست کے واجب  اور مستحب  سب ہی بائیں ہاتھ سے کئے جاتے ہیں۔

افعال دو نوع کے ہوتے ہیں:

1-ایک وہ جودونوں اعضاء میں مشترک ہوتے ہیں۔

2-دوم:وہ جو کسی ایک کے ساتھ خاص ہوتے ہوتے ہیں اور شریعت کے مستمر قواعد یہ ہیں  کہ جن افعال میں دائیں بائیں دونوں جا نب شریک ہوتے ہیں تو دائیں کو مقدم رکھا جاتا ہے کرامت کی وجہ سے،جیسے وضوءاور غسل ہوا اور مسواک کرنے دایاں طرف، بغلوں کے بال اکھیڑنا،لباس اور جوتا پہننا،مسجد  اور گھر میں داخل ہونا اور بیت الخلاء سے نکلنا وغیرہ۔

اور اس کے برعکس کاموں میں بائیں کو مقدم کیا جائے گا۔جیسے بیت الخلاء میں داخل ہونا،جوتا اتارنا،مسجد سےنکلنا اور وہ کام جو ان میں کسی ایک طے ساتھ خاص ہیں تو اگر اس کا شمار  باب الکرامۃ  میں ہے تو دائیں ہاتھ سے ہوگا جیسے کھانا پینا ،مصافحہ کرنا ،کتاب پکڑنا پکڑانا    اور  اس طرح دیگر امور ،اور اس کے برعکس کام  بائیں ہاتھ سے ہونگے  جیسے ڈھیلے استعمال کرنا،ذکر کوچھونا ،ناک صاف کرنا وغیرہ۔پھرآگے تفصیل بیان کی ہے۔

اور الشیخ ابن عثیمین سے پوچھاگیا کہ انسان مسواک دائیں ہاتھ سے کرے یابائیں ہاتھ سے؟

توآپ نے جواب دیا: یہ محل اختلاف ہے،بعض علماء کہتے ہیں کہ مسواک  دائیںہاتھ سے کرے ،کیونکہ مسواک سنت ہے اور سنت اللہ کی اطاعت اور تقرب کا ذریعہ ہے تو بائیں ہاتھ سے کرنا  مناسب  نہیں ہے کیونکہ بایاں ہاتھ اذیت والی چیزوں کی طرف بڑھایا جاتا ہے۔ اور دوسرے علماء کہتے ہیں بائیں ہاتھ سے کرنا افضل ہے،اس لئے کہ مسواک کرنا ازالۂ اذایٰ ہے اور ازالہ اذیٰ بایں ہاتھ سے ہوتا ہے جیسے استنجاء اور ڈھیلوں کا استعمال ، تو یہ با ئیں ہاتھ سے ہوتے ہیں8 دائیں  ہاتھ سے نہیں۔

کچھ اور علماء اس میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر مسواک منہ کی صفائی کے لئے ہو جیسے نیند سے بیداری پر کیا جائےیا ازالۂ  اذیٰ کے لئے تو یہ بائیں ہاتھ کے ساتھ ہونا چاہیے اور  اگر صرف  عبادت وتقرب کے طور پر ہو جیسے وضوء کرنے کے بعد مسواک کیا جائے  تو یہ دائیں ہاتھ سے ہونا چاہیے۔ الحمد للہ  اس مسٔلے میں وسعت ہے، جس طرح کوئی چاہے  مسواک کر سکتا ہے کیونکہ  کوئی واضح نص موجود نہیں ہے الخ۔

میں کہتا ہوں:ابوداود((217/2 برقم((414 کتاب اللباس باب الانتعال‘‘ میں حدیث آئی ہے۔

عائشہ﷜ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ جہاں تک استطاعت ہوئی طہارت،کنگھی اور جوتا پہننے سمیت اپنے تما م کاموں میں دایاں طرف  پسند فرماتےتھے اور مسلم نے’’فی شانہ کلہ‘‘ ذکر نہیں کیا، مسواک کا ذکر کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے، ابوداود کہتےہیں:روایت کیا ہےشعبہ سے معاذنے اور اس نے(وسواکہ) ذکر نہیں کیا، اور اس طرح بخاری اور ابن ماجہ (69/1 برقم:401( میں روایت کیا ہے۔

عظیم آبادی نے عون المعبود ((118/4 میں کہا ہےکہ امام نووی کہتے ہیں:

’’شریعت کا مستمر قاعدہ یہ ہے کہ  اگر کوئی کام کرامت والا ہے ہے جیسے کپڑے یا شلوار  پہننا، موزے پہننا،مسجد میں داخل ہونا،مسواک کرنا ،سرمہ لگانا،ناخن کاٹنا، مونچھیں کترنا ،بالوں کی کنگھی کرنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، سر مونڈھنا، نماز میں سلام پھیرنا،طہارت طے اعضاء  کا دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا پینا،مصافحہ کرنا،حجر اسود کا استلام کرنا، اوراس کے علاوہ جو ان جیسے کام ہوں تو ان میں دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب  ہے۔

اور اس کے برعکس  ہوں جیسے بیت الخلاء  میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا،، ناک صاف کرنا، استنجاء کرنا، کپڑے یا شلوار  یا موزے اتارنا، اور ان جیسے  دیگر  کام، تو ان میں بایاں طرف مستحب ہے  اور سب دائیں طرف کی  کرامت اور شرافت کی وجہ سے ہے۔

مراجعہ کریں النووی شرح مسلم((132/1

اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری ((216/1 میں اس روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:ابوداود نے مسلم بن ابراہیم اس نے شعبہ سے لفظ(وسواکہ) زیادہ بیان کیا ہے۔

اور ردالمختار ((28/1 میں ہے :’’ اس کا دائیں ہاتھ سے  پکڑنا  مستحب ہے۔اسی طرح البحر والنہر میں ہے: اور الدر میں  کہا ہے:’’ یہی منقول ومتواتر چلا آرہا ہے‘‘۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ سے منقول ہے لیکن اس کے محشی علامہ نوح آفندی  کہتے ہیں :’’میں کہتا ہوں دعویٰ نقل کے لئے نقل کی ضرورت ہے جو موجود نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ باب تطہیر سے ہے تو دائیں ہاتھ سے مستحب ہے جیسے کلی کرنا اور  باب ازالۂ الاذیٰ سے ہے تو بائیں ہاتھ سے مستحب ہے۔

ظاہر دوسرا قول ہے  جیسے کہ امام مالک ﷫  سے مروی ہے اور اول قول کے لئےاستدلال کیا جاسکتا ہے اس سے جو عائشہ کی  حدیث میں بعض طرق میں آیا  ہے کہ نبیﷺ کنگھی کرنے، جوتا پہننے ،طہارت کرنے اور مسواک کرنے میں دائیں طرف سے شروع کرنا  پسند کرتے تھے  اور وارد ہے کہ منہ کے دائیں  جانب سے شروع کرنا مراد ہے‘‘۔تلخیص کے ساتھ۔

میں کہتا ہوں :یہ تاویل مطلق کو مقید کرنے کے مترادف ہے اور حدیث میں قید لگانا جائز نہیں ہے جبکہ اس کی دلیل نہ ہو تو افضل میری رائے میں مسواک دائیں ہاتھ سے کرنا ہے اس صحیح حدیث کی وجہ سے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص400

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ