سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) مختارِ کل کون؟

  • 11917
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2704

سوال

(3) مختارِ کل کون؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عالم دین نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  کومختار کل ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث پیش کی ہے کہ رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے صرف دونماز یں پڑھنے کے متعلق کہا، تو آپ نے اسے اجازت دے دی ۔جب آپ کونمازوں میں کمی کرنے کااختیار ہے تو دیگر کاموں کے متعلق بھی کلی اختیار رکھتے ہیں۔ یہ حدیث مسند احمد کے حوالہ سے پیش کی ہے وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مذکورہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک آدمی آیا اور وہ اس شرط پرمسلمان ہوا کہ وہ صرف دونمازیں پڑھے گا توآپ نے اس کی شرط کوقبول کرلیا۔     [مسند امام احمد،ص ۳۶۳ج۵]

 ہمیں بریلوی علما سے یہ شکوہ ہے کہ وہ ذخیرۂ احادیث میں سے صرف اپنے مطلب کی احادیث چن لیتے ہیں اورباقی ’’کیا تمام کتاب کے بعض احکام کومانتے ہو اور بعض کاانکار کردیتے ہو۔‘‘    [۲/البقرۃ :۸۵]

 رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  کادوسروں کے لیے مختار کل ہونا بہت دور کی بات ہے، آپ اپنے متعلق بھی کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’آپ کہہ دیجئے! مجھے خود اپنے نفع ونقصان کااختیار نہیں، مگر اﷲ تعالیٰ ہی جوچاہتا ہے وہ ہوتا ہے اوراگر میں غیب جانتا ہوتا توبہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اورمجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔‘‘    [۷/الاعراف:۱۸۸]

                نمازوں کے متعلق کمی وبیشی کااختیار بھی آپ کے پاس بالکل نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا توجب نمازیں فرض ہوئی تھیں تو بار بار اﷲ کے حضور تحفیف کی درخواست نہ کرتے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ معراج کے موقع پررسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  کوپچاس نمازوں کا تحفہ ملا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام   کے کہنے پر نو (۹) مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے حضور تخفیف کی درخواست کی ہرمرتبہ پانچ نمازیں معاف ہوئیں اس طرح جب پانچ باقی رہ گئیں توفرمایا: ’’اب مجھے اﷲ تعالیٰ کے حضور مزید تخفیف کی درخواست دینے سے حیاآتی ہے، اﷲ تعالیٰ نے بھی فرمایا: میرے اس فیصلے میں مزید تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘     [صحیح بخاری، الصلوٰۃ:۳۴۹]

                رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وفد ثقیف حاضر ہوا اورانہوں نے نماز سے رخصت طلب کی توآپ نے فرمایا: ’’جس دین میں رکوع وسجود نہیں ،اس میں کوئی برکت نہیں ہے ۔‘‘    [ مسند امام احمد، ص:۲۱۸،ج۴]

                حدیث کے متعلق علامہ احمد شاکر لکھتے ہیں۔ بادیٔ النظر ذہن اس حدیث کو قبول نہیں کرتا لیکن دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اعرابی رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا کہ مجھ پراحکامِ شریعت کی بھر مارہے تورسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پابندیٔ نماز کی وصیت فرمائی ،وہ کہنے لگا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا توآپ نے فرمایا:’’ عصر اورفجر کی نماز کو کسی حالت میں ترک نہیں کرنا ۔‘‘یہ الفاظ بھی آپ نے تالیفِ قلبی کے لیے ارشاد فرمائے۔ ایک حدیث کے مطابق آپ نے فرمایا: ’’جب یہ دین میں داخل ہوگا توپوری نمازیں پڑھے گا۔‘‘     [حاشیہ احمد شاکر،ص:۱۶۸،ج۱۵]

                اس کامطلب یہ ہے کہ آپ کوبذریعہ وحی اطلاع دے دی گئی تھی کہ یہ رخصت ہنگامی بنیادوں پر ہے ،بالآخر اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اعرابی تمام نمازوں کی پابندی کرے گا۔اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے حضر ت فضا لہ لیثی رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا ،آپ نے مجھے دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ فرمایا۔ پھر نمازاوراوقات نماز کی تعلیم دی کہ ان نمازوں کو بروقت اداکرنا ہے۔میں نے عرض کیا: ان اوقات میں بہت مصروف ہوتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگرتجھے واقعی مصروفیت ہے توکم از کم دونمازیں فجراور عصر توبروقت اداکرو ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنا۔‘‘     [مسند امام احمد، ص:۳۴۴،ج۴]

                اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے نماز سے معافی طلب نہیں کی تھی بلکہ انہیں اپنی کثرتِ مصروفیت کی وجہ سے بروقت ادا نہ کرنے سے معذرت کی تھی۔ چنانچہ آپ نے وقتی طور پر اسے قبول کرلیا ۔محدثین نے اس سے ایک اصول اخذ کیا ہے کہ صحیح شرائط میں ایک غلط شرط کووقتی طور پرقبول کیاجاسکتا ہے، پھر شرط کے ایفا کے موقع پر اس کی وضاحت کر دی جائے، جیسا کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم   نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا  سے فرمایا کہ ’’بریرہ کوآزاد کرنے کے سلسلہ میں اس کے مالک کی ولا کے متعلق شرط کوقبول کرلو اور اسے خرید کرآزاد کردو ،پھر آپ نے اپنے خطبہ میں اس کی وضاحت کر دی تھی۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ  مذکورہ حدیث کی بنا پر فرماتے ہیں کہ شرطِ فاسد کی بنا پر اسلام لانا صحیح ہے لیکن جب وہ دائرہ اسلام میں آجائے تواسے تمام شریعت اسلام پر عمل کرنا ضروری ہو گا۔ چنانچہ حافظ ابن رجب حنبلی نے اس موضوع پر بہترین بحث کی ہے ۔    [جامع العلوم والحکم ، ص۷۳،حدیث نمبر ۲]

اس حدیث سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق مختار کل ہونے کامسئلہ کشید کرناایجاد بندہ ہے، جس پر کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں ۔  [واﷲ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:46

تبصرے