سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(175) مسجد میں وضوء کرنا جائز ہے

  • 11915
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3114

سوال

(175) مسجد میں وضوء کرنا جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسجد میں وضوء کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب مسجد میں وضوء کیلئے الگ جگہ بنی ہو تو وضوء کرنا مطلقاً جائز ہے لیکن وضوء کا گھر میں کر کے جانا افضل ہے کیونکہ عبد اللہ الصنابحی کی صحیح حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جب مؤمن بندہ وضوء کرتا ہے او رکلی کرتا ہے  تو اسکے منہ کے گناہ سب نکل جاتے ہیں اور  جب ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑتا ہے تو ناک کے سارے گناہ نکل جاتے ہیں اور جب چہرہ دھوتا ہے تو چہرے سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک آنکھ کی پلکوں کے نیچے سے بھی جاتے ہیں اور جب ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھ کے گناہ یہاں تک کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں اور  جب سر کا مسح کرتا ہے تو سر کے گناہ یہاں تک کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں اور جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے گناہ یہاں تک کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتے ہیں پھر اسکا مسجد تک چلنا اور اس کا نماز اس کیلئے نفل ہو جاتا ہے‘‘۔ (رواہ مالک و النسائی)جیسے کہ المشکاۃ(1/39)میں ہے

اور صحیحن میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث آئی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’آدمی کی باجماعت پڑھی ہوئی نماز اسکی گھر یا بازار میں پڑھی نماز سے پچیس گنا زیادہ ہوتی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جب وہ اچھی طرح وضوء کر کے گھر سے مسجد کی طرف نکلتا ہے نماز ہی کیلئے گھر سے نکلا ہےتو وہ بھی قدم اٹھاتا ہے تو اس سے اس کا ایک درجہ  بلند ہو گا اور ایک گناہ معاف ہو گا جب وہ نماز پڑھتا ہے او رپھر اپنی نماز والی جگہ  پر ہی ہوتا ہے تو فرشتہ اس کیلئے دعائیں کرتے ہیں اے اللہ!اس پر رحم فرما‘اے اللہ!اسکی مغفرت فرما‘اے اللہ!اس پر رحم فرمایا۔اور جب تک یہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہےتو گویا کہ نماز ہی میں ہوتا ہے‘‘۔

تو یہ دونوں اور اس جیسی دیگر احادیث سے گھر میں وضوء کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

مسجد کے اندر وضوء کرنا جائز ہے لیکن تھوکے بغیر کیونکہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے جیسے کہ اس کا تذکرہ حدیث میں ہے اور دلیل اس کی بخاری کی وہ حدیث ہے جو(1/25)میں نعیم المجمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا تو انہوں نے وضوء کیا اور کہا:’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا وہ فرماتے تھے:’’میری امت قیامت کے دن جب بلائی جائیگی تو غر(چمکتے ماتھے والے)اور محجلین (چمکتے پاؤں والے)ہونگے  وضوء کے آثار کی وجہ سے تو جو اپنی چمک مزید بڑھا سکتا ہے بڑھائے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کئے اندر وضوء کیا تھا۔

اور اس لئے بھی کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ مستعمل پانی پاک ہے او رعنقریب پھر اسکا ذکر آئے گا۔

ابن المنذر  رحمہ اللہ تعالیٰ  کہتے ہیں کہ مسجد میں وضوء  کے جواز پر اہل علم کا اتفاق ہے جیسے کہ اعلام الساجد ص(311)میں ہے۔

اور المجمع(2/21)میں ہے:’’کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجد میں وضوء کیا‘‘۔(احمد باسناد حسن)

امام بیہقی  رحمہ اللہ تعالیٰ  نے اپنی سنن (4/322)میں روایت کیا ہے’’ باب من توضأفي المسجد عمن یخدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم  ‘‘باب ہے جو مسجد میں وضوء کرتا  ہے مروی ہے اس سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت کرتا تھا‘‘۔اس نے کہا:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجد میں خفیف وضوء کیا‘‘اور المعنی(1/164)میں ہے:’’مسجد میں وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اسکے وضوء کرنے سے کس کو تکلیف نہ ہو اور نماز کی جگہ گیلی نہ ہوتی ہو‘ابن المنذر رحمہ اللہ تعالیٰ  کہتے ہیں:’’شہروں کے جن علماء سے ہم  نے علم سیکھا ہے وہ اسے مباح سمجھتے تھے انمیں ابن عمر‘ابن عباس ‘عطاء ‘طاؤس‘ابو بکر بن محمد‘ابن عمرو‘ابن حزم‘ابن جریج او رعام اہل علم ہیں‘‘۔

اور اسی طرح فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ تعالیٰ  میں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص390

محدث فتویٰ

تبصرے